Shorish kashmiri

شورش کاشمیری

شورش کاشمیری کے تمام مواد

4 غزل (Ghazal)

    اس کشاکش میں یہاں عمر رواں گزرے ہے

    اس کشاکش میں یہاں عمر رواں گزرے ہے جیسے صحرا سے کوئی تشنہ دہاں گزرے ہے اس طرح تلخیٔ ایام سے بڑھتی ہے خراش جیسے دشنام عزیزوں پہ گراں گزرے ہے اس طرح دوست دغا دے کے چلے جاتے ہیں جیسے ہر نفع کے رستے سے زیاں گزرے ہے یوں بھی پہنچے ہیں کچھ افسانے حقیقت کے قریب جیسے کعبہ سے کوئی پیر ...

    مزید پڑھیے

    اب جی رہا ہوں گردش دوراں کے ساتھ ساتھ (ردیف .. ن)

    اب جی رہا ہوں گردش دوراں کے ساتھ ساتھ یہ ناگوار فرض ادا کر رہا ہوں میں اے رب ذو الجلال تری برتری کی خیر اب ظالموں کی مدح و ثنا کر رہا ہوں میں شورشؔ مری نوا سے خفا ہے فقیہ شہر لیکن جو کر رہا ہوں بجا کر رہا ہوں میں

    مزید پڑھیے

    راستے پر پیچ راہی رستگار (ردیف .. ے)

    راستے پر پیچ راہی رستگار رہبروں کے نقش پا گم ہو گئے ضربت امواج تیرا شکریہ ناؤ ڈوبی نا خدا گم ہو گئے شیخ صاحب ہم رہ پیر مغاں مے کدے میں کیا ہوا گم ہو گئے خندۂ مہر درخشاں کی قسم اس سحر کے آشنا گم ہو گئے اب کہاں شعر و سخن کی رونقیں شاعر شعلہ نوا گم ہو گئے

    مزید پڑھیے

    سرمئی راتوں سے چھنوا کر سحر کی رونقیں

    سرمئی راتوں سے چھنوا کر سحر کی رونقیں نالۂ شام غریباں بیچتا پھرتا ہوں میں موج بربط موج گل موج صبا کے ساتھ ساتھ نکہت گیسوئے خوباں بیچتا پھرتا ہوں میں دیدنی ہے اب مرے چاک گریباں کا مآل کج کلاہوں کے گریباں بیچتا پھرتا ہوں میں شعلۂ تاریخ کی زد پر ہے تاج خسروی غرۂ تقدیر سلطاں ...

    مزید پڑھیے

6 نظم (Nazm)

    ہجر و وصال

    خود اپنے دل کا خون فضا میں اچھال کے مضموں لکھے ہیں ہم نے فراق و وصال کے کچھ سانحوں کی یاد ہے عنوان روز و شب کچھ حادثے ہیں نوک زباں ماہ و سال کے اک ناتمام درد شریک چمن رہا شاخوں پہ کونپلوں کی نقابیں اجال کے صحن حرم سے انجمن مے فروش تک دو گام فاصلہ ہے ذرا دیکھ بھال کے پچھتا رہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اقبال سے ہم کلامی

    کل اذان صبح سے پہلے فضائے قدس میں میں نے دیکھا کچھ شناسا صورتیں ہیں ہم نشیں تھے حکیم شرق سے شیخ مجدد ہم کلام گوش بر آواز سب دانش وران علم و دیں بوالکلام آزاد سے غالبؔ تھے مصروف سخن میرؔ و مومنؔ دور حاضر کی غزل پہ نکتہ چیں اس سے کچھ ہٹ کر گلابی شاخچوں کی چھاؤں میں تھے ولی اللہ کے ...

    مزید پڑھیے

    خطیب اعظم (سید عطاء اللہ شاہ بخاری)۔

    خطیب اعظم عرب کا نغمہ عجم کی لے میں سنا رہا ہے سر چمن چہچہا رہا ہے سر وغا مسکرا رہا ہے حدیث سرو و سمن نچھاور زبان شمشیر اس پہ قرباں مسیلمہ ایسے جعل سازوں کی بیخ و بنیاد ڈھا رہا ہے قرون اولی کی رزم گاہوں سے مرتضیٰ کا جلال لے کر دبیز نیندیں جھنجھوڑتا ہے مجاہدوں کو جگا رہا ہے ہیں اس ...

    مزید پڑھیے

    ذرا صبر!

    اک نئے دور کی ترتیب کے ساماں ہوں گے دست جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے برق خود اپنی تجلی کی محافظ ہوگی! پھول خود اپنی لطافت کے گریباں ہوں گے نغمہ و شعر کا سیلاب امڈ آئے گا وقت کے سحر سے غنچے بھی غزل خواں ہوں گے ناؤ منجدھار سے بے خوف و خطر کھیلے گی ناخدا بربط طوفاں پہ رجز خواں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    معلوم نہیں کیوں

    یوں گردش ایام ہے معلوم نہیں کیوں رندوں کا لہو عام ہے معلوم نہیں کیوں مفلس ہے تو اک جنس فرومایہ ہے لا ریب مخلص ہے تو ناکام ہے معلوم نہیں کیوں تہمت کے سزا وار فقیہان حرم ہیں ملا یہاں بد نام ہے معلوم نہیں کیوں اب خون کے دھبے ہیں مدیروں کی قبا پر خامہ دم صمصام ہے معلوم نہیں کیوں خون رگ ...

    مزید پڑھیے

تمام