Shayan  Quraishi

شایان قریشی

شایان قریشی کی غزل

    شکوہ ذات سے دشمن کا لشکر کانپ جاتا ہے

    شکوہ ذات سے دشمن کا لشکر کانپ جاتا ہے اگر کردار پختہ ہو ستم گر کانپ جاتا ہے تصور میں ابھرتا ہے کبھی جب قبر کا منظر اچٹ جاتی ہیں نیندیں اور بستر کانپ جاتا ہے ملے ہیں زخم کچھ ایسے مجھے اپنے رفیقوں سے کئی برسوں کے کچھ رشتوں کا محور کانپ جاتا ہے کسی بھی جنگ میں کوئی شہادت کی خبر سن ...

    مزید پڑھیے

    وقت آخر لے گیا وہ شوخیاں وہ بانکپن

    وقت آخر لے گیا وہ شوخیاں وہ بانکپن پھول سے چہرے تھے کتنے اور تھے نازک بدن لوگ رکھتے ہیں دلوں میں آتش بغض و حسد اور پھر کرتے ہیں شکوہ جل رہا ہے تن بدن چل پڑے جب جانب منزل تو پھر اے ہم سفر کیا سفر کی مشکلیں کیا دوریاں کیسی تھکن ہم نہیں توڑیں گے اپنا اتفاق و اتحاد کر چکے ہیں فیصلہ ...

    مزید پڑھیے

    شام کے ڈھلتے سورج نے یہ بات مجھے سمجھائی ہے

    شام کے ڈھلتے سورج نے یہ بات مجھے سمجھائی ہے تاریکی میں دیکھ سکوں تو آنکھوں میں بینائی ہے احساسات کی تہہ تک جانا کتنا مشکل ہوتا ہے ذہن و دل میں جتنا اترو اتنی ہی گہرائی ہے رشتے ناطے باہر سے تو جسم کو گھیرے بیٹھے ہیں روح کے اندر جھانک کے دیکھو میلوں تک تنہائی ہے لفظوں نے ہی نشتر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2