شکوہ ذات سے دشمن کا لشکر کانپ جاتا ہے
شکوہ ذات سے دشمن کا لشکر کانپ جاتا ہے اگر کردار پختہ ہو ستم گر کانپ جاتا ہے تصور میں ابھرتا ہے کبھی جب قبر کا منظر اچٹ جاتی ہیں نیندیں اور بستر کانپ جاتا ہے ملے ہیں زخم کچھ ایسے مجھے اپنے رفیقوں سے کئی برسوں کے کچھ رشتوں کا محور کانپ جاتا ہے کسی بھی جنگ میں کوئی شہادت کی خبر سن ...