Shayan  Quraishi

شایان قریشی

شایان قریشی کی غزل

    زمانہ یاد رکھے گا تمہیں یہ کام کر جانا

    زمانہ یاد رکھے گا تمہیں یہ کام کر جانا کسی افسردہ چہرے میں خوشی کے رنگ بھر جانا کسی بھی حادثے پر اس کی آنکھیں نم نہیں ہوتیں اسی حالت کو کہتے ہیں میاں احساس مر جانا اگر جانا ضروری ہے تو تھوڑا مسکرا بھی دے مجھے اچھا نہیں لگتا ترا با چشم تر جانا ابھی بھی وقت ہے باقی تڑپ پیدا کرو ...

    مزید پڑھیے

    بات ہو دیر و حرم کی یا وطن کی بات ہو

    بات ہو دیر و حرم کی یا وطن کی بات ہو بات جب ہو دوستوں حسن چمن کی بات ہو دیش کی خاطر خوشی سے جو لٹا دیتے ہیں جاں ان شہیدان وطن کے بانکپن کی بات ہو قوم و مذہب کیا کسی کا اور کیا ہے رنگ و نسل ایسی باتیں چھوڑ کر بس علم و فن کی بات ہو عصر حاضر نے ہمارا دل بھی پتھر کر دیا لازمی ہے اب ...

    مزید پڑھیے

    زبانیں چپ رہیں لیکن مزاج یار بولے گا

    زبانیں چپ رہیں لیکن مزاج یار بولے گا کہ تو با ظرف ہے کتنا ترا کردار بولے گا نئی نسلوں کو کس نے کیا دیا ہے دیکھیے لیکن مرے اشعار میں تہذیب کا معیار بولے گا وہ جس نے کھائے ہیں دھوکے محبت کر کے اپنوں سے وہی تو خون کو پانی گلوں کو خار بولے گا جہاں سچ بات کہنے کا ہو مطلب جان سے ...

    مزید پڑھیے

    صبر و قرار ٹوٹ گیا اضطراب سے

    صبر و قرار ٹوٹ گیا اضطراب سے پھر راز کھل گیا مری آنکھوں کے آب سے اس دل کے ساز پر کسی برہن کا گیت ہے آنے لگی ہیں سسکیاں دل کے رباب سے جانے سے پہلے اس نے مجھے دیوتا کہا میں عمر بھر نہ چھوٹ سکا اس خطاب سے پھر یاد آ گئے وہی کالج کے دن مجھے سوکھے گلاب نکلے پرانی کتاب سے بربادیوں میں ...

    مزید پڑھیے

    بکھری تھی ہر سمت جوانی رات گھنیری ہونے تک

    بکھری تھی ہر سمت جوانی رات گھنیری ہونے تک لیکن میں نے دل کی نہ مانی رات گھنیری ہونے تک درد کا دریا بڑھتے بڑھتے سینے تک آ پہنچا ہے اور چڑھے گا تھوڑا پانی رات گھنیری ہونے تک آگ پہ چلنا قسمت میں ہے برف پہ رکنا مجبوری کون سنے گا اپنی کہانی رات گھنیری ہونے تک اس کے بنا یہ گلشن بھی اب ...

    مزید پڑھیے

    راہ وفا میں سایۂ دیوار و در بھی ہے

    راہ وفا میں سایۂ دیوار و در بھی ہے لیکن اسی پہ جان سے جانے کا ڈر بھی ہے وقفہ ہے زندگی تو فقط چند روز کا پھر شہر رنگ و بو کی طرف اک سفر بھی ہے روشن رکھو چراغ لہو سے تمام شب ہر رات کے نصیب میں آخر سحر بھی ہے کردار دیکھنے کی روایت نہیں رہی اب آدمی یہ دیکھتا ہے مال و زر بھی ہے سن تو ...

    مزید پڑھیے

    سفر کہنے کو جاری ہے مگر عزم سفر غائب

    سفر کہنے کو جاری ہے مگر عزم سفر غائب یہ ایسا ہے کہ جیسے گھر سے ہوں دیوار و در غائب ہزاروں مشکلیں آئیں وفا کی راہ میں مجھ پر کبھی منزل ہوئی اوجھل کبھی راہ سفر غائب عجب منظر یہ دیکھا ہے خرد والوں کی بستی میں یہاں سر تو سلامت تھے مگر فکر و نظر غائب حسیں موسم نے نظریں پھیر لیں اپنے ...

    مزید پڑھیے

    زخم سینے کا پھر ابھر آیا

    زخم سینے کا پھر ابھر آیا یاد بھر کوئی چارہ گر آیا مجھ کو بخشی خدا نے اک بیٹی چاند آنگن میں اک اتر آیا خوش نصیبوں کو گھر ملا یارو میرے حصے میں پھر سفر آیا تم تغیر کی بات پر ٹھہرے میں صلیبوں سے بات کر آیا اپنی تہذیب کو نہیں چھوڑا یہ بھی الزام میرے سر آیا اک کلی کھل کے پھول میں ...

    مزید پڑھیے

    ہزاروں مشکلیں ہیں اور لاکھوں غم لیے ہیں ہم

    ہزاروں مشکلیں ہیں اور لاکھوں غم لیے ہیں ہم محبت کا مگر ہاتھوں میں اک پرچم لئے ہیں ہم وہ نغمے جو خزاں کو پھر بہار نو بناتے ہیں انہی گیتوں کی ہونٹوں پر نئی سرگم لئے ہیں ہم ہمارے دل میں ہے جذبات کا تپتا ہوا سورج جو پلکوں سے چنی وہ درد کی شبنم لئے ہیں ہم مبارک ہو خرد والوں تمہیں فکر ...

    مزید پڑھیے

    حالات کے کہنہ در و دیوار سے نکلیں

    حالات کے کہنہ در و دیوار سے نکلیں دنیا کو بدلنا ہے تو گھر بار سے نکلیں ناکام صداؤں کے ہیں آسیب یہاں پر اس دشت تمنا سے تو رفتار سے نکلیں جن میں ہو محبت کا اخوت کا اشارہ پیغام کچھ ایسے بھی تو اخبار سے نکلیں دنیا بھی تو بن سکتی ہے جنت کا نمونہ ہم اپنی انا اپنے ہی پندار سے نکلیں جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2