Sharif kunjahi

شریف کنجاہی

شریف کنجاہی کی غزل

    جو اپنے سر پہ سر شاخ آشیاں گزری

    جو اپنے سر پہ سر شاخ آشیاں گزری کسی کے سر پہ قفس میں بھی وہ کہاں گزری اسی کی یاد ہے مہتاب شام ہائے فراق وہ ایک شب کہ سر کوئے مہ وشاں گزری جہاں میں شوق کبھی رائیگاں نہیں جاتا میں کیوں کہوں کہ مری عمر رائیگاں گزری جبین شوق ہماری گلی گلی میں جھکی کہ ہر گلی سے تری خاک آستاں گزری

    مزید پڑھیے

    کتنے نازک کتنے خوش گل پھولوں سے خوش رنگ پیالے

    کتنے نازک کتنے خوش گل پھولوں سے خوش رنگ پیالے اک بدمست شرابی نے میخانے میں ٹکڑے کر ڈالے موسمیات کے ماہر ہونے کے تو دعویدار سبھی ہیں ہم سمجھیں جو حبس گھٹائے ہم مانیں جو جھکڑ ٹالے مصنوعی نیلونی پھولوں سے گلدان سجائے جائیں اور قربنیقوں کا لقمہ بن جائیں خوشبوؤں والے فرعونوں کے ...

    مزید پڑھیے

    تو سمجھتا ہے تو خود تیری نظر گہری نہیں

    تو سمجھتا ہے تو خود تیری نظر گہری نہیں ورنہ بنیاد خزاں اے بے خبر گہری نہیں وصل شیریں ہے نہ جوئے شیر ہے تیرے نصیب ضرب اے فرہاد تیشے کی اگر گہری نہیں یہ بھی ممکن ہے کہ خود تیری نوا ہو نرم خیز نیند لوگوں کی تو اے مرغ سحر گہری نہیں زندگی کی آج قدریں ہیں فقط گملوں کے پھول ان میں ...

    مزید پڑھیے

    تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے

    تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے یہ اور بات سہی ہم نہ دیکھ پائیں گے یقیں تو ہے کہ کھلے گا نہ کھل سکا بھی اگر در بہار پہ دستک دیئے ہی جائیں گے غنودہ راہوں کو تک تک کے سوگوار نہ ہو ترے قدم ہی مسافر انہیں جگائیں گے لبوں کی موت سے بد تر ہے فکر و جذب کی موت کدھر ہیں وہ جو انہیں موت سے ...

    مزید پڑھیے

    اب کسی شاخ پہ ہلتا نہیں پتہ کوئی

    اب کسی شاخ پہ ہلتا نہیں پتہ کوئی دشت سے عمر ہوئی گزرا نہ جھونکا کوئی لب پہ فریاد نہ ہے آنکھ میں قطرہ کوئی وادئ شب میں نہیں ہم سفر اپنا کوئی خندۂ موج مری تشنہ لبی نے جانا ریت کا تپتا ہوا دیکھ کے ذرہ کوئی جادۂ شوق پہ کل لوگ تھے آتے جاتے اب شریفؔ اس پہ مسافر نہیں ملتا کوئی

    مزید پڑھیے

    دھڑکنیں بند تکلف سے ذرا آزاد کر

    دھڑکنیں بند تکلف سے ذرا آزاد کر برملا ممکن نہیں دل میں کسی کو یاد کر زندگی اک دوڑ ہے تو سانس پھولے گی ضرور یا بدل مفہوم اس کا یا نہ پھر فریاد کر ہر خزاں کی کوکھ سے ہوتی ہے پیدا نو بہار دامن امید میلا اور نہ دل ناشاد کر بستیاں تو نے خلاؤں میں بسائیں بھی تو کیا دل کے ویرانوں کو ...

    مزید پڑھیے

    فضائے صحن گلستاں ہے سوگوار ابھی

    فضائے صحن گلستاں ہے سوگوار ابھی خزاں کی قید میں ہے یوسف بہار ابھی ابھی چمن پہ چمن کا گماں نہیں ہوتا قبائے غنچہ کو ہونا ہے تار تار ابھی ابھی ہے خندۂ گل بھی اگر تو زیر لبی رکا رکا سا ہے کچھ نغمۂ ہزار ابھی چمن تو خیر چمن ہے نوا گروں کو نہیں خود اپنی شاخ نشیمن پہ اختیار ابھی ابھی ...

    مزید پڑھیے

    گل زار میں وہ رت بھی کبھی آ کے رہے گی

    گل زار میں وہ رت بھی کبھی آ کے رہے گی جب کوئی کلی جور خزاں کے نہ سہے گی انسان سے نفرت کے شرر بجھ کے رہیں گے صدیوں کی یہ دیوار کسی دن تو ڈھے گی جس باپ نے اولاد کی بہبود نہ سوچی اس باپ کو اولاد عیاں ہے جو کہے گی تو جون کی گرمی سے نہ گھبرا کہ جہاں میں یہ لو تو ہمیشہ نہ رہی ہے نہ رہے ...

    مزید پڑھیے