شمیم انور کی غزل

    رکنے کا اب نام نہ لے ہے راہی چلتا جائے ہے

    رکنے کا اب نام نہ لے ہے راہی چلتا جائے ہے بوڑھا برگد اپنے سائے میں خود ہی سستائے ہے بھینی بھینی مہوا کی بو دور گاؤں سے آئے ہے بھولی بسری کوئی کہانی نس نس آگ لگائے ہے الجھی سانسیں سرگوشی اور چوڑی کی مدھم آواز پاس کا کمرہ روز رات کی نیند اڑا لے جائے ہے کم کیا ہوتی لجا کی یہ دوری ...

    مزید پڑھیے

    جو چہرے کے باہر ہے وہ اندر نہ ملے گا

    جو چہرے کے باہر ہے وہ اندر نہ ملے گا چٹکی میں سمندر کی سمندر نہ ملے گا دکھ ہوگا سوا دکھ کو نمائش میں سجا کے ہر چہرہ پہ ہمدردی کا لشکر نہ ملے گا سوکھے ہوئے تالاب کی کیا جیب تلاشی صدیوں کا وہ پھینکا ہوا پتھر نہ ملے گا وہ کتنی دفعہ توڑ کے پھر جوڑا گیا ہے انگشت نظر سے تمہیں چھو کر نہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنا سایہ دیکھ کر میں بے تحاشہ ڈر گیا

    اپنا سایہ دیکھ کر میں بے تحاشہ ڈر گیا ہو بہ ہو ویسا لگا جو میرے ہاتھوں مر گیا ہلکے سے حسن تبسم کا بھی اندازہ ہوا بوجھ سارے دن کا لے کر جب میں اپنے گھر گیا پھل لدے اس پیڑ پر پھر پڑ گیا پہرہ کڑا پتیوں کو چومتا جب سن سے اک پتھر گیا کچھ مکینوں میں عجب تبدیلیاں پائی گئیں اس بڑی بلڈنگ ...

    مزید پڑھیے

    ردائے آہنی ہر آدمی کے سر پر ہے

    ردائے آہنی ہر آدمی کے سر پر ہے کہ جیسے سنگ کی بارش اسی نگر پر ہے نہ کھو جو مٹھی میں انگلی کسی کی ہم سفرو ہمارا قافلہ انجانی رہ گزر پر ہے بچا رہا تھا جو کل رات کالی آندھی سے وہ پھل چڑھا ہوا ہر شخص کی نظر پر ہے وہ کون روئی تھی کاجل لگا کے آنکھوں میں یہ دھبہ دھبہ سیاہی رخ سحر پر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی شے ڈوبے تو دریا میں لہر جاگے ہے

    کوئی شے ڈوبے تو دریا میں لہر جاگے ہے کب اذاں مرغ کے دینے سے سحر جاگے ہے کنکری مارے سے پانی میں اثر جاگے ہے اک ذرا خواہش پرواز سے پر جاگے ہے ان کو منبر کی بلندی سے تشفی نہ ہوئی جن کی آواز پہ تحریک کا سر جاگے ہے نیند کی کائی سے بوجھل ہے ہر اک آنکھ مگر سنگ کے خوف سے شیشے کا نگر جاگے ...

    مزید پڑھیے