Shakeel Badayuni

شکیل بدایونی

معروف فلم گیت کار اور شاعر

Famous poet and film lyricist

شکیل بدایونی کی نظم

    کہاں ہے آ جا

    راحت بندۂ بے دام کہاں ہے آ جا پیکر حسن سر بام کہاں ہے آ جا رونق بزم ہے او جام کہاں ہے آ جا زینت جلوہ گہ عام کہاں ہے آ جا اے امید دل نا کام کہاں ہے آ جا تیری فرقت خلل انداز سکون پیہم تیری فرقت دل مایوس پہ اک طرفہ ستم تیری فرقت سبب کاوش و بیداریٔ غم تو نہیں ہے تو پھر آرام کہاں ہے آ ...

    مزید پڑھیے

    رقاصۂ حیات سے

    پھولوں پہ رقص اور نہ بہاروں پہ رقص کر گلزار ہست و بود میں خاروں پہ رقص کر ہو کر جمود گلشن جنت سے بے نیاز دوزخ کے بے پناہ شراروں پہ رقص کر شمع سحر فسون تبسم، حیات گل فطرت کے ان عجیب نظاروں پہ رقص کر تنظیم کائنات جنوں کی ہنسی اڑا اجڑے ہوئے چمن کی بہاروں پہ رقص کر سہمی ہوئی صدائے دل ...

    مزید پڑھیے

    نمائش علی گڑھ

    شفق نزع میں لے رہی تھی سنبھالا اندھیرے کا غم کھا رہا تھا اجالا ستاروں کے رخ سے نقاب اٹھ رہی تھی فضاؤں سے موج شباب اٹھ رہی تھی مئے زندگی جام مے نوش میں تھی وہ کیف مسرت، وہ لمحات رنگیں وہ احساس مستی وہ جذبات رنگیں وہ پر کیف عالم وہ دل کش نظارے وہ جلووں کے بہتے ہوئے خشک دھارے وہ نمکین ...

    مزید پڑھیے

    مجھے بھول جا

    مرے ساقیا مجھے بھول جا مرے دل ربا مجھے بھول جا نہ وہ دل رہا نہ وہ جی رہا نہ وہ دور عیش و خوشی رہا نہ وہ ربط و ضبط دلی رہا نہ وہ اوج تشنہ لبی رہا نہ وہ ذوق بادہ کشی رہا میں الم نواز ہوں آج کل میں شکستہ ساز ہوں آج کل میں سراپا راز ہوں آج کل مجھے اب خیال میں بھی نہ ملا مجھے بھول جا مجھے ...

    مزید پڑھیے

    اک شہنشاہ نے بنوا کے۔۔۔۔

    اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے اس کے سائے میں سدا پیار کے چرچے ہوں گے ختم جو ہو نہ سکے گی وہ کہانی دی ہے اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل تاج وہ شمع ہے الفت کے صنم خانے کی جس کے پروانوں میں مفلس بھی ہیں زردار بھی ہیں سنگ مرمر میں سمائے ہوئے خوابوں ...

    مزید پڑھیے

    ان کی تصویر دیکھ کر

    آج کیا ہے جو ملا شوخ نگاہوں کو قرار؟ کیا ہوا حسن کی معصوم حیاؤں کا وقار آج کیوں تم مجھے دیکھے ہی چلے جاتے ہو؟ دفعتاً ٹوٹ گیا کس لیے بجتا ہوا ساز کیا ہوئے نغمے وہ اب کیوں نہیں آتی آواز آج ہونٹوں پہ خموشی ہی خموشی کیوں ہے؟ خوب تدبیر نکالی ہے منانے کی مجھے آتش سوز محبت میں جلانے کی ...

    مزید پڑھیے

    زلزلہ

    ایک شب ہلکی سی جنبش مجھے محسوس ہوئی میں یہ سمجھا مرے شانوں کو ہلاتا ہے کوئی آنکھ اٹھائی تو یہ دیکھا کہ زمیں ہلتی ہے جس جگہ شے کوئی رکھی ہے وہیں ہلتی ہے صحن و دیوار کی جنبش ہے تو در ہلتے ہیں باہر آیا تو یہ دیکھا کہ شجر ہلتے ہیں کوئی شے جنبش پیہم سے نہیں ہے محروم ایک طاقت ہے پس پردہ ...

    مزید پڑھیے

    علی گڑھ چھوڑنے کے بعد

    ہم نشیں رات کی مغموم خموشی میں مجھے دور کچھ دھیمی سی نغموں کی صدا آتی ہے جیسے جاتی ہوئی افسردہ جوانی کی پکار جس کو سن سن کے مری روح لرز جاتی ہے جیسے گھٹتی ہوئی موجوں کا اترتا ہوا شور مطربہ جیسے کوئی دور نکل جاتی ہے یا ہواؤں کا ترنم کسی ویرانے میں جیسے تنہائی میں دوشیزہ کوئی گاتی ...

    مزید پڑھیے