شہزاد نیر کے تمام مواد

16 غزل (Ghazal)

    خود سے ہے رنج بیانی اپنی

    خود سے ہے رنج بیانی اپنی کان اپنے ہیں کہانی اپنی روز دیوار پہ دستک دینا بات پتھر کو سنانی اپنی عمر اوروں کو ہی رٹتے گزری بھول بیٹھا ہوں نشانی اپنی دن کو سوچوں کی چتا پر جلنا رات کو راکھ اٹھانی اپنی گل بدن باغ فقط تیرا ہے نشہ اپنا ہے جوانی اپنی روبرو تیرے برا بن جانا ہم کو خود ...

    مزید پڑھیے

    ایسے بے مہر زمانے سے وفا مانگتا ہے

    ایسے بے مہر زمانے سے وفا مانگتا ہے دل بھی سادہ ہے خلاؤں میں ہوا مانگتا ہے اس کا ہم عشق پرستوں سے تقابل کیسا شیخ تو اپنی عبادت کا صلہ مانگتا ہے جا کسی اور سے لے نسبت افلاک میاں ہم زمیں زاد فقیروں سے یہ کیا مانگتا ہے محتسب دامن تعزیر کشادہ رکھنا شہر کا شہر بغاوت کی سزا مانگتا ...

    مزید پڑھیے

    دم بہ دم گردش دوراں کا گھمایا ہوا شخص

    دم بہ دم گردش دوراں کا گھمایا ہوا شخص ایک دن حشر اٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص یاد آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے کار بے کار زمانہ میں بھلایا ہوا شخص دشت بے آب میں آواز نہ الفاظ کہیں ہر طرف دھوپ تھی پھر پیڑ ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا

    شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا میں خوش ہوا کہ مرے گھر کو بھی گھرانا ملا فلک پہ اڑتے ہوئے بھی نظر زمیں پہ رہی مزاج مجھ کو مقدر سے طائرانہ ملا ہم اس کے حسن سخن کی دلیل کیا دیں گے وہ جتنی بار ملا ہم سے برملا نہ ملا کسی کی دیکھتی آنکھیں بھی آس پاس رہیں تجھے ملا تو بہ احساس ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک گام پہ صدیاں نثار کرتے ہوئے

    ہر ایک گام پہ صدیاں نثار کرتے ہوئے میں چل رہا تھا زمانے شمار کرتے ہوئے یہی کھلا کہ مسافر نے خود کو پار کیا تری تلاش کے صحرا کو پار کرتے ہوئے میں رشک ریشۂ گل تھا بدل کے سنگ ہوا بدن کو تیرے بدن کا حصار کرتے ہوئے مجھے ضرور کنارے پکارتے ہوں گے مگر میں سن نہیں پایا پکار کرتے ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    بلندی کی پیمائش

    جتنے اونچے ہیں اتنے ہی خاموش ہیں کن پہاڑوں میں رہنا پڑا ہے مجھے سارے اپنی بڑائی کی دھن میں مگن دیکھتے جا رہے ہیں مگر بات کرتے نہیں بات کرتے ہیں تو خود سے آگے کوئی لفظ کہتے نہیں! اپنے ہی بوجھ سے میری خاموشی کوزہ کمر ہو گئی۔۔۔ تو چلی اک بڑی خامشی کی طرف اور مری ننھی سی خامشی نے ...

    مزید پڑھیے

    کفن چور

    کچھ نہیں، گھر میں مرے کچھ بھی نہیں کوئی کپڑا کہ حرارت کو بدن میں رکھتا لقمۂ نان جویں، خون کو دھکا دیتا من کو گرماتا سکوں، تن سے لپٹتا بستر کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں! رات کو جسم سے چپکاتی ہوئی سرد ہوا جسم کے بند مساموں میں اترتی ٹھنڈک سنگ مرمر سی ہوئیں خون ترستی ...

    مزید پڑھیے

    سرخ گلابوں کے موسم میں

    بہت بے رنگ سے دن ہیں ترے گلنار گالوں کے گلابی پھول کھلتے ہیں نہ تیرے پھول ہونٹوں سے ملن کی شوخ باتوں کے سنہری رنگ میں لپٹی کوئی تتلی ہی اڑتی ہے نہ دن کے زرد کاغذ پر تری تصویر بنتی ہے نہ شب کی کالی چادر پر تری آنکھیں چمکتی ہیں نہ تیری مسکراہٹ کی کرن ملنے کو آتی ہے رگوں کے سرد غاروں ...

    مزید پڑھیے