شہناز نور کی غزل

    لوگوں میں دیکھ بھال کی عادت نہیں رہی

    لوگوں میں دیکھ بھال کی عادت نہیں رہی یا آئنوں کی شہر میں قیمت نہیں رہی مانا کوئی نباہ کی صورت نہیں رہی لیکن نہیں کہ تجھ سے محبت نہیں رہی یوں بھی رہائی کا کوئی امکاں نہیں رہا پہلی سی آرزو میں بھی شدت نہیں رہی ورنہ کوئی تو آتا مرا حال پوچھنے شاید کسی کو میری ضرورت نہیں رہی اس کا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی جو معرکہ خوابوں سے رت جگوں کا ہوا

    کبھی جو معرکہ خوابوں سے رت جگوں کا ہوا عجیب سلسلہ آنکھوں سے آنسوؤں کا ہوا جلا کے چھوڑ گیا تھا جو طاق دل میں کبھی کسی نے پوچھا نہ کیا حال ان دیوں کا ہوا لکھا گیا ہے مرا نام دشمنوں میں سدا شمار جب بھی کبھی میرے دوستوں کا ہوا مذاق اڑاتے تھے آندھی سے پہلے سب میرا جو میرے گھر کا تھا ...

    مزید پڑھیے

    ہم سفر زیست کا سورج کو بنائے رکھا

    ہم سفر زیست کا سورج کو بنائے رکھا اپنے سائے سے ہی قد اپنا بڑھائے رکھا شعلۂ یاد کو لپٹائے رکھا دامن سے اس بہانے سے تجھے اپنا بنائے رکھا لوگ آنکھوں سے ہی اندازۂ غم کرتے ہیں ہم نے آنکھوں میں ترا وصل سجائے رکھا اک یہی تو مرا ہم راز تھا تنہائی کا درد کو دل کی حویلی میں چھپائے ...

    مزید پڑھیے

    غیر لگتا رہا سگا بھی کچھ

    غیر لگتا رہا سگا بھی کچھ کوئی اپنا مگر ہوا بھی کچھ اے مرے دل میں عمر بھر تیری صرف سنتا رہا کہا بھی کچھ انکساری ادب محبت بھی مجھ میں سب ہے تو ہے انا بھی کچھ اپنی تقدیر کے لکھے کو سب بس مٹاتے رہے مٹا بھی کچھ کچھ گنہ گار تو میں ہوں لیکن ہے مخالف مرے ہوا بھی کچھ ایک ذرہ بھی اے مرے ...

    مزید پڑھیے

    طاق جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دیے

    طاق جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دیے اس کے بعد جو غم آئے پھر ہنس کے ٹال دیے کب تک آڑ بنائے رکھتی اپنے ہاتھوں کو کب تک جلتے تیز ہواؤں میں بے حال دیے وہی مقابل بھی تھا میرا سنگ راہ بھی تھا جس پتھر کو میں نے اپنے خد و خال دیے زرد رتوں کی گرد نے حال چھپایا تھا گھر کا اک بارش نے ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے

    کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے میں بجھ رہی ہوں روا داریاں نبھاتے ہوئے کسی کو میرے دکھوں کی خبر بھی کیسے ہو کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے کہاں تک اور میں سمٹوں کہ عمر بیت گئی دل و نظر کے تقاضوں سے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے حوصلے زنجیر کرنا چاہتا ہے

    ہوا کے حوصلے زنجیر کرنا چاہتا ہے وہ میری خواہشیں تصویر کرنا چاہتا ہے نظر جس سے چرا کر میں گزرنا چاہتی ہوں وہ موسم ہی مجھے تسخیر کرنا چاہتا ہے وصال دید کو آنکھیں چھپانا چاہتی ہیں مگر دل واقعہ تحریر کرنا چاہتا ہے مزاج باد و باراں آشنا ہے شوق لیکن نئے دیوار و در تعمیر کرنا چاہتا ...

    مزید پڑھیے