لوگوں میں دیکھ بھال کی عادت نہیں رہی

لوگوں میں دیکھ بھال کی عادت نہیں رہی
یا آئنوں کی شہر میں قیمت نہیں رہی


مانا کوئی نباہ کی صورت نہیں رہی
لیکن نہیں کہ تجھ سے محبت نہیں رہی


یوں بھی رہائی کا کوئی امکاں نہیں رہا
پہلی سی آرزو میں بھی شدت نہیں رہی


ورنہ کوئی تو آتا مرا حال پوچھنے
شاید کسی کو میری ضرورت نہیں رہی


اس کا بھی بے وفاؤں میں ہونے لگا شمار
اپنی بھی جیسے شہر میں عزت نہیں رہی


کچھ میں بھی تھک گئی ہوں اسے ڈھونڈتے ہوئے
کچھ زندگی کی پاس بھی مہلت نہیں رہی