Shahida Shah

شاہدہ شاہ

شاہدہ شاہ کی غزل

    تاروں بھرا فلک ہے بچھونا تو ہے نہیں

    تاروں بھرا فلک ہے بچھونا تو ہے نہیں اس چاندنی کے تخت پہ سونا تو ہے نہیں آنسو گریں جو سنگ پہ رستہ بنائیں گے پتھر کی آنکھ نے کبھی رونا تو ہے نہیں چاروں طرف میں اس کے قدم ڈھونڈھتی رہی اس گھر میں کوئی پانچواں کونا تو ہے نہیں

    مزید پڑھیے

    خوابوں سا کوئی خواب بنانے میں لگی ہوں

    خوابوں سا کوئی خواب بنانے میں لگی ہوں اک دشت میں ہوں پیاس بجھانے میں لگی ہوں بتلاؤ کوئی اسم مجھے رد بلا کا میں آخری کردار نبھانے میں لگی ہوں وہ صحن میں افلاک لیے کب سے کھڑا ہے میں چھت پہ ہوں بادل کو اڑانے میں لگی ہوں اک عمر ہوئی پیڑ پہ دو نام لکھے تھے اک عمر سے وہ نام مٹانے میں ...

    مزید پڑھیے

    اس کے ہونے کی خبر شہر میں دل نے پائی

    اس کے ہونے کی خبر شہر میں دل نے پائی کوئی ساعت کی بھی فرصت نہیں ملنے پائی ہاتھ پہ رکھوں ترے نقش ابھر آتے ہیں کیا صفت دیکھ تو اس شہر کی گل نے پائی عشق نے مجھ کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کر میں ردا درد کی سوزن سے نہ سلنے پائی ہم کو تنہائی نے توڑا کیا ریزہ ریزہ زخم دل ہجر کی بارش تو نہ ...

    مزید پڑھیے

    دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا

    دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا صدیوں ہوئی تہذیب سزا اور جزا کی اک سجدۂ سرمست نے دیں کا نہیں چھوڑا تصویر لگی رہ گئی دیوار کھنڈر پر جو رشتہ مکاں سے تھا مکیں کا نہیں چھوڑا سو روپ تھے وحدت میں بھی اس پارہ صفت کے پر ہم کو بت دل نے یقیں کا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دریا ہے نہ دیوار کھڑی ہے لیکن

    کوئی دریا ہے نہ دیوار کھڑی ہے لیکن بیچ میں ایک صدی آن پڑی ہے لیکن آنکھ صحرا کی طرح خشک سہی اندر سے سات ساون سے مسلسل ہی جھڑی ہے لیکن وہ جو کہتا ہے مجھے ہجر نہیں ہے لاحق بات کچھ بھی یہ نہیں بات بڑی ہے لیکن تین دیواروں پہ گزرے ہوئے موسم کے نشاں چوتھی دیوار پہ آویزاں گھڑی ہے ...

    مزید پڑھیے

    دن میں اشکوں کے نگیں دشت میں ہارے کتنے

    دن میں اشکوں کے نگیں دشت میں ہارے کتنے رات ہم راہ لیے آ گئی تارے کتنے خواب آنکھوں کے سلا آئے گھروں کے اندر لوگ سڑکوں پہ لیے آ گئے نعرے کتنے خود کو نیلام کیا مصر کے بازاروں میں قرض یوسف نے محبت کے اتارے کتنے سب ہی مصروف عبادت ہیں گنے کون یہاں مسجدیں شہر میں کتنی ہیں منارے ...

    مزید پڑھیے