دن میں اشکوں کے نگیں دشت میں ہارے کتنے
دن میں اشکوں کے نگیں دشت میں ہارے کتنے
رات ہم راہ لیے آ گئی تارے کتنے
خواب آنکھوں کے سلا آئے گھروں کے اندر
لوگ سڑکوں پہ لیے آ گئے نعرے کتنے
خود کو نیلام کیا مصر کے بازاروں میں
قرض یوسف نے محبت کے اتارے کتنے
سب ہی مصروف عبادت ہیں گنے کون یہاں
مسجدیں شہر میں کتنی ہیں منارے کتنے
کیا کوئی دفن سے پہلے یہ بتائے گا ہمیں
ہیں کھڑے لوگ جنازے میں ہمارے کتنے
لمحہ تصویر ہوا تجھ سے جدا ہوتے سمے
یوں تو بہتے ہی رہے وقت کے دھارے کتنے
اٹھ نہیں پائے ذرا سطح زمیں سے اوپر
لے کے پھرتے ہیں تعلق کے غبارے کتنے