Shahida Shah

شاہدہ شاہ

شاہدہ شاہ کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    تاروں بھرا فلک ہے بچھونا تو ہے نہیں

    تاروں بھرا فلک ہے بچھونا تو ہے نہیں اس چاندنی کے تخت پہ سونا تو ہے نہیں آنسو گریں جو سنگ پہ رستہ بنائیں گے پتھر کی آنکھ نے کبھی رونا تو ہے نہیں چاروں طرف میں اس کے قدم ڈھونڈھتی رہی اس گھر میں کوئی پانچواں کونا تو ہے نہیں

    مزید پڑھیے

    خوابوں سا کوئی خواب بنانے میں لگی ہوں

    خوابوں سا کوئی خواب بنانے میں لگی ہوں اک دشت میں ہوں پیاس بجھانے میں لگی ہوں بتلاؤ کوئی اسم مجھے رد بلا کا میں آخری کردار نبھانے میں لگی ہوں وہ صحن میں افلاک لیے کب سے کھڑا ہے میں چھت پہ ہوں بادل کو اڑانے میں لگی ہوں اک عمر ہوئی پیڑ پہ دو نام لکھے تھے اک عمر سے وہ نام مٹانے میں ...

    مزید پڑھیے

    اس کے ہونے کی خبر شہر میں دل نے پائی

    اس کے ہونے کی خبر شہر میں دل نے پائی کوئی ساعت کی بھی فرصت نہیں ملنے پائی ہاتھ پہ رکھوں ترے نقش ابھر آتے ہیں کیا صفت دیکھ تو اس شہر کی گل نے پائی عشق نے مجھ کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کر میں ردا درد کی سوزن سے نہ سلنے پائی ہم کو تنہائی نے توڑا کیا ریزہ ریزہ زخم دل ہجر کی بارش تو نہ ...

    مزید پڑھیے

    دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا

    دریا کی مسافت نے زمیں کا نہیں چھوڑا یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا صدیوں ہوئی تہذیب سزا اور جزا کی اک سجدۂ سرمست نے دیں کا نہیں چھوڑا تصویر لگی رہ گئی دیوار کھنڈر پر جو رشتہ مکاں سے تھا مکیں کا نہیں چھوڑا سو روپ تھے وحدت میں بھی اس پارہ صفت کے پر ہم کو بت دل نے یقیں کا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دریا ہے نہ دیوار کھڑی ہے لیکن

    کوئی دریا ہے نہ دیوار کھڑی ہے لیکن بیچ میں ایک صدی آن پڑی ہے لیکن آنکھ صحرا کی طرح خشک سہی اندر سے سات ساون سے مسلسل ہی جھڑی ہے لیکن وہ جو کہتا ہے مجھے ہجر نہیں ہے لاحق بات کچھ بھی یہ نہیں بات بڑی ہے لیکن تین دیواروں پہ گزرے ہوئے موسم کے نشاں چوتھی دیوار پہ آویزاں گھڑی ہے ...

    مزید پڑھیے

تمام