Shahid Kaleem

شاہد کلیم

شاہد کلیم کی غزل

    کیوں کہتے ہو پاؤں نہیں گھر چلتا ہے

    کیوں کہتے ہو پاؤں نہیں گھر چلتا ہے ایسی ہی باتوں پر خنجر چلتا ہے آسودہ ہے کون تماشا بینی سے آنکھیں تھک جاتی ہیں منظر چلتا ہے رات گئے سب آپس میں مل جاتے ہیں خوابوں کی دنیا میں بستر چلتا ہے شیشے کا گھر اچھا لگتا ہے لیکن شیشے کے گھر پر ہی پتھر چلتا ہے پیاس بجھانا ساحل ساحل جا کر ...

    مزید پڑھیے

    لہو کا داغ نہ تھا زخم کا نشان نہ تھا

    لہو کا داغ نہ تھا زخم کا نشان نہ تھا وہ مر چکا تھا کسی کو مگر گمان نہ تھا میں چل پڑا تھا کہیں اجنبی دشاؤں میں ہوا کا زور تھا کشتی میں بادبان نہ تھا میں اس مکان میں مدت سے قید تھا کہ جہاں کوئی زمین نہ تھی کوئی آسمان نہ تھا مری شکست مری فتح کچھ نہیں یعنی وہ حادثہ تھا کوئی میرا ...

    مزید پڑھیے

    جو دیکھتا ہے مجھے آئینہ کے اندر سے

    جو دیکھتا ہے مجھے آئینہ کے اندر سے وہ کون ہے کوئی پوچھے بھی اس ستم گر سے سکوت ٹوٹ گیا خامشی کے جنگل کا مری صدائیں اٹھیں اس طرح مرے گھر سے میں ایک تنکے کی صورت ہمیشہ بہتا رہا مجھے مفر نہ ملا وقت کے سمندر سے مرے دیار میں ماضی کی جو تھیں تصویریں سبھوں کو توڑ دیا میں نے آج پتھر ...

    مزید پڑھیے

    میں انتہائے یاس میں تنہا کھڑا رہا

    میں انتہائے یاس میں تنہا کھڑا رہا سایہ مرا شریک سفر ڈھونڈھتا رہا پھیلی تھی چاروں سمت سیاہی عجیب سی میں ہاتھ میں چراغ لیے گھومتا رہا یاد اس کی دور مجھ کو سر شام لے گئی میں ساری رات اپنے لیے جاگتا رہا خود کو سمیٹ لینے کا انجام یہ ہوا میں راستے پہ سنگ کی صورت پڑا رہا کاغذ کی ناؤ ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرے گھر میں چراغوں سے کچھ نہ کام لیا

    اندھیرے گھر میں چراغوں سے کچھ نہ کام لیا کہ اپنے آپ سے یوں ہم نے انتقام لیا تمہارے شہر سے سوغات اور کیا ملتی کسی سے پیاس لی میں نے کسی سے جام لیا مرے زوال کی وہ ساعتیں رہی ہوں گی تمہیں پکار کے دامن کسی کا تھام لیا شجر شجر مری پرواز تھی ہوا کی طرح کھلی فضا میں مجھے کس نے زیر دام ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ صفحۂ ہستی پہ میں ابھر نہ سکا

    سیاہ صفحۂ ہستی پہ میں ابھر نہ سکا مری شبیہ میں کوئی بھی رنگ بھر نہ سکا ہر ایک راہ تھی مسدود کوہساروں میں بلندیوں سے کسی طرح میں اتر نہ سکا برے دنوں کا میں اک خوفناک منظر ہوں مجھے کبھی بھی کوئی شخص یاد کر نہ سکا نکیلے خار تھے شیشے تھے سنگ ریزے تھے رہ حیات سے بے داغ میں گزر نہ ...

    مزید پڑھیے

    کورے کاغذ پہ مرا نقش اتارے کوئی

    کورے کاغذ پہ مرا نقش اتارے کوئی ایک مبہم سا میں خاکہ ہوں ابھارے کوئی ناخدا بھی تو مرے کام یہاں آ نہ سکا اور پار اترا ہے لہروں کے سہارے کوئی ایک مدت سے خموشی ہی خموشی ہے وہاں چپ کے صحرا میں مرا نام پکارے کوئی اس جہاں میں تو سبھی دست نگر ہیں شاہدؔ سامنے کس کے یہاں ہاتھ پسارے ...

    مزید پڑھیے

    روشن ہر ایک سمت چراغ نظر تو ہو

    روشن ہر ایک سمت چراغ نظر تو ہو حکم سفر سے پہلے حساب سفر تو ہو اس شہر کا سکوت کبھی ٹوٹتا نہیں چیخوں تو میری چیخ میں کوئی اثر تو ہو میں تو سیاہ رات کے زنداں میں ہوں اسیر سایہ مرا کہاں ہے مجھے کچھ خبر تو ہو پانی کا یہ بہاؤ ندی کی شناخت ہے اب میرے برف برف بدن میں شرر تو ہو فصل بہار ...

    مزید پڑھیے

    تری تھکی ہوئی آنکھوں میں خواب تھا کہ نہیں

    تری تھکی ہوئی آنکھوں میں خواب تھا کہ نہیں مرے سوال کا کوئی جواب تھا کہ نہیں اٹھا کے صرف ببولوں کے خار لے آئے چمن چمن کہیں تازہ گلاب تھا کہ نہیں بڑے سکوں سے رہے موم کے بدن والے تمہارا شہر تہ آفتاب تھا کہ نہیں ہر ایک شخص وہاں گن رہا تھا لہروں کو گزرتے لمحوں کا کوئی حساب تھا کہ ...

    مزید پڑھیے

    جلتی بجھتی ہوئی شمعوں کا دھواں رہتا ہے

    جلتی بجھتی ہوئی شمعوں کا دھواں رہتا ہے کچھ عجب دھند کے عالم میں مکاں رہتا ہے خشک دریا ہے نہ دریا پہ ہے پہرہ لیکن ہر طرف پیاس کا خوں رنگ سماں رہتا ہے اس بھرے شہر میں مشکل ہے تجسس اس کا کس کو فرصت جو کہے کون کہاں رہتا ہے بھولنا سہل نہیں وقت کی سنگینی کا زخم بھرتا ہے مگر اس کا نشاں ...

    مزید پڑھیے