Shahid Akhtar

شاہد اختر

شاہد اختر کی نظم

    بازار

    اس قدر شوخ نگاہوں سے نہ دیکھو مجھ کو غیرت حسن پہ الزام نہ آ جائے کہیں تم نے خود بھی نہیں سمجھا ہے ابھی تک جس کو لب پہ وہ خواہش بے نام نہ آ جائے کہیں یہ جو معصوم تمنا ہے تمہارے دل میں کتنی سنگین خطا ہے یہ تمہیں کیا معلوم اور دنیا میں محبت کے خطا کاروں پر کس قدر ظلم ہوا ہے یہ تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    آس

    شب کے آوارہ گرد شہزادے جا چھپے اپنی خواب گاہوں میں پڑ گئے ہیں گلابی ڈورے سے رات کی شبنمی نگاہوں میں سیم تن اپسراؤں کے جھرمٹ محو پرواز ہیں فضاؤں میں رات رانی کی دل نشیں خوشبو گھل گئی منچلی ہواؤں میں جھیل کی بے قرار جل پریاں آ کے ساحل کو چوم جاتی ہیں دم بہ دم میری ڈوبتی نظریں تیری ...

    مزید پڑھیے

    اعتراف

    جل بجھے آنکھوں میں خوابوں کے مہکتے پیکر اب کہیں کوئی شرارہ ہے نہ شعلہ نہ دھواں کھو گئے وقت کی پتھریلی گزر گاہوں پر چند بے نام تمناؤں کے قدموں کے نشاں ایک پرچھائیں ہوں جس میں نہ کوئی رنگ نہ روپ صرف احساس ہو تم جس کا کوئی نام نہیں میں بھی پابستہ ہوں حالات کی زنجیروں میں تم پہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    تیرے سوا

    سوچتا ہوں کہ ترے پیار کے بدلے مجھ کو کیا ملا درد و غم و رنج و مصیبت کے سوا اک تڑپ ایک کسک ایک خلش ہے پیہم ایک لمحہ بھی سکوں کا نہ مرے پاس رہا اور تو اجنبی آغوش کی زینت بن کر اک چمکتی ہوئی فردوس میں جا بیٹھی ہے رقص کرتے ہیں نئے خواب نگاہوں میں تری دل سے ماضی کے سبھی نقش مٹا بیٹھی ...

    مزید پڑھیے