Shahbaz Khwaja

شہباز خواجہ

شہباز خواجہ کی غزل

    اک ایسا وقت بھی صحرا میں آنے والا ہے

    اک ایسا وقت بھی صحرا میں آنے والا ہے کہ راستہ یہاں دریا بنانے والا ہے وہ تیرگی ہے کہ چھٹتی نہیں کسی صورت چراغ اب کے لہو سے جلانے والا ہے تمہارے ہاتھ سے ترشا ہوا وجود ہوں میں تمہی بتاؤ یہ رشتہ بھلانے والا ہے ابھی خیال ترے لمس تک نہیں پہنچا ابھی کچھ اور یہ منظر بنانے والا ...

    مزید پڑھیے

    یہ زرد پھول یہ کاغذ پہ حرف گیلے سے

    یہ زرد پھول یہ کاغذ پہ حرف گیلے سے تمہاری یاد بھی آئی ہزار حیلے سے بدن کا لمس ہوا کو بنا گیا خوشبو نظر کے سحر سے منظر ہوئے نشیلے سے یہ زندگی بھی فقط ریت کا سمندر ہے کبھی نگاہ جو ڈالو فنا کے ٹیلے سے یہ شاعری مجھے شہبازؔ یوں بھی پیاری ہے کہ میرا خود سے تعلق ہے اس وسیلے سے

    مزید پڑھیے

    وہ ایک خواب کہ آنکھوں میں جگمگا رہا ہے

    وہ ایک خواب کہ آنکھوں میں جگمگا رہا ہے چراغ بن کے مجھے روشنی دکھا رہا ہے وہ صرف حق جو مرے لب سے آشکار ہوا سکوت دیر میں اک عمر گونجتا رہا ہے مرے سخن میں جو اک لو سی تھرتھراتی ہے چراغ شب سے مرا بھی مکالمہ رہا ہے مرے لیے یہ خد و خال کی حقیقت کیا وہ خاک ہوں کہ جسے چاک پھر بلا رہا ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے دیکھ لیا تھا جو ساتھ چلتے ہوئے

    کسی نے دیکھ لیا تھا جو ساتھ چلتے ہوئے پہنچ گئی ہے کہاں جانے بات چلتے ہوئے سفر سفر ہے کبھی رائیگاں نہیں ہوتا سر سحر چلی آئی ہے رات چلتے ہوئے سنا ہے تم بھی اسی دشت غم سے گزرے ہو سو ہم نے کی ہے بڑی احتیاط چلتے ہوئے ہم اپنی اکھڑی ہوئی سانسوں کو بحال کریں کہیں رکھے تو سہی کائنات چلتے ...

    مزید پڑھیے

    سفر کا ایک نیا سلسلہ بنانا ہے

    سفر کا ایک نیا سلسلہ بنانا ہے اب آسمان تلک راستہ بنانا ہے تلاشتے ہیں ابھی ہم سفر بھی کھوئے ہوئے کہ منزلوں سے ادھر راستہ بنانا ہے سمیٹنا ہے ابھی حرف حرف حسن ترا غزل کو اپنی ترا آئینہ بنانا ہے مجھے یہ ضد ہے کبھی چاند کو اسیر کروں سو اب کے جھیل میں اک دائرہ بنانا ہے سکوت شام الم ...

    مزید پڑھیے

    ایسے رکھتی ہے ہمیں تیری محبت زندہ

    ایسے رکھتی ہے ہمیں تیری محبت زندہ جس طرح جسم کو سانسوں کی حرارت زندہ شوق کی راہ میں اک ایسا بھی پل آتا ہے جس میں ہو جاتی ہے صدیوں کی ریاضت زندہ روز اک خوف کی آواز پہ ہم اٹھتے ہیں روز ہوتی ہے دل و جاں میں قیامت زندہ اب بھی انجان زمینوں کی کشش کھینچتی ہے اب بھی شاید ہے لہو میں کہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2