صدائے مژدۂ لا تقنطوا کے دھارے پر
صدائے مژدۂ لا تقنطوا کے دھارے پر چراغ جلتے رہے آس کے مینارے پر عجیب اسم تھا لب پر کہ پاؤں اٹھتے ہی میں خود کو دیکھتا تھا عرش کے کنارے پر عجیب عمر تھی صدیوں سے رہن رکھی ہوئی عجیب سانس تھی چلتی تھی بس اشارے پر وہ ایک آنکھ کسی خواب کی تمنا میں وہ ایک خواب کہ رکھا ہوا شرارے پر اسی ...