افق پہ
وہ ایک میں ہی نہیں ہوں نہ جانے کتنے ہیں جو سوچتے ہیں سمجھتے ہیں چاہتے بھی ہیں کہ پھوٹتی ہوئی پہلی کرن سے بھی پہلے افق پہ وقت کے چمکیں نیا سا رنگ بھریں جو صبح ہو تو نسیم سحر کا ساتھ دھریں سمیر بن کے بہیں رنگ و بو کی دھرتی پر گلوں سے بات کریں ہر گلی سے کھل کھلیں مگر یہ وقت یہ سہما ہوا ...