Shahab Sarmadi

شہاب سرمدی

  • 1914 - 1994

شہاب سرمدی کی نظم

    افق پہ

    وہ ایک میں ہی نہیں ہوں نہ جانے کتنے ہیں جو سوچتے ہیں سمجھتے ہیں چاہتے بھی ہیں کہ پھوٹتی ہوئی پہلی کرن سے بھی پہلے افق پہ وقت کے چمکیں نیا سا رنگ بھریں جو صبح ہو تو نسیم سحر کا ساتھ دھریں سمیر بن کے بہیں رنگ و بو کی دھرتی پر گلوں سے بات کریں ہر گلی سے کھل کھلیں مگر یہ وقت یہ سہما ہوا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے بد گماں سے

    اپنے بد گماں سے تم سمجھتی ہو کہ میں سر خوش توفیق نشاط آج ویسا ہی بلا کوش ہوں جیسے کبھی تھا تم نے شاید یہ سنا ہے کہ اس اندھیری میں بھی میں اسی طرح جلائے ہوں امنگوں کا دیا اے مری جان وفا رنج کو راحت نہ کہو ایک افسانۂ سادہ کو حقیقت نہ کہو تم نے طنزاً یہ کہا ہے کہ مرا شغل ادب مری تسکیں ...

    مزید پڑھیے