شاہ حسین نہری کی غزل

    بدن دریدہ و بے برگ و بار ہونا بھی

    بدن دریدہ و بے برگ و بار ہونا بھی مرے ہی واسطے پھر شرمسار ہونا بھی نظر اٹھاؤں میں جب جب بھی دشت شب دیکھوں عجیب شے ہے سحر کا شکار ہونا بھی طریق سارے گماں کے قدم سے لپٹے ہیں کہ میرے سر ہے حقیقت نثار ہونا بھی مرے ہی نام پہ منزل رسی یہ ٹھہری ہے مرے لیے ہی مگر پا فگار ہونا بھی میں اس ...

    مزید پڑھیے

    ناگزیر رشتگی سا ہے تو ہو

    ناگزیر رشتگی سا ہے تو ہو ورنہ مجھ سے کیا علاقہ ہے تو ہو وہ مجھے دیکھے نہ میں پاؤں اسے اب کوئی میرا شناسا ہے تو ہو پر کشش ہیں راستے کے پیچ و خم چین پانے کا ٹھکانا ہے تو ہو سامنے ہیں آسمانی وسعتیں بے زمینی کا زمانہ ہے تو ہو چہرۂ احساس پر ہے تازگی آدمی ہونا پرانا ہے تو ہو نازکی اک ...

    مزید پڑھیے

    بیاں اپنا دکھ اب کیا جائے نا

    بیاں اپنا دکھ اب کیا جائے نا بیاں کے بنا بھی جیا جائے نا مسرت ملے دیکھنے کی اسے تصور بھی جس کا کیا جائے نا کہاں ہے تو اے منتظر مرگ من کہ اب مجھ سے تجھ بن جیا جائے نا بہت زخم کھائے مری آنکھ نے دریدہ یہ منظر سیا جائے نا قدم چومتی ہے زمیں میری شاہؔ مگر مجھ سے بدلہ دیا جائے نا

    مزید پڑھیے

    بھرے پرے سے مکاں میں بھی شاہؔ تنہا ہے

    بھرے پرے سے مکاں میں بھی شاہؔ تنہا ہے ردائے شب کے کنارے پہ ایک تارا ہے بس ایک لمحہ تھا حائل تجھے بھلانے میں یہ کس مقام پہ تیرا خیال آیا ہے تمام گرد ہے چہرہ تھکی تھکی آنکھیں اداسیوں کا یہ بادل بہت گھنیرا ہے شب سیہ میں ہے تیری ہی یاد کا لپکا نگاہ ٹھوکریں کھاتی ہے گھپ اندھیرا ...

    مزید پڑھیے

    یاں کے ہونے کو مثالوں کی زمیں چاہیے ہے

    یاں کے ہونے کو مثالوں کی زمیں چاہیے ہے اس کی ہستی کو یہ تمثیل نہیں چاہیے ہے ہر نشاں اس کا ہے دل میں بھی ہے جلوہ اس کا ظاہر دیدہ کی تسکیں بھی کہیں چاہیے ہے جو یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے وہی ہے اچھا کیوں کہیں اس کو بھی اچھا جو یہیں چاہے ہے یادیں آباد زمانوں کی ہیں آباد اس میں ہے خرابہ ...

    مزید پڑھیے

    اگر بات تیری ہو پیاری لگے

    اگر بات تیری ہو پیاری لگے جو ہو بات کرنا تو بھاری لگے ترے ہاتھ ہی سے عطا ہو جو تیری تو تھوڑی سی بھی مجھ کو ساری لگے دم صبح تارے سے سورج نشاں انہیں برگ گل کی عماری لگے کوئی چاہے لوٹے مزے یاں کے یاں مجھے زندگی مرگ یاری لگے سمندر سے پیاسے کو اے شاہؔ جی مزا ندیوں کا بھی کھاری لگے

    مزید پڑھیے

    کیا کہوں کب دھواں نہیں اٹھتا

    کیا کہوں کب دھواں نہیں اٹھتا مجھ سے اپنا زیاں نہیں اٹھتا بھینچتے رہتے ہیں در و دیوار اور دل سے مکاں نہیں اٹھتا آبرو تھام تھام لیتی ہے ہاتھ ورنہ کہاں نہیں اٹھتا اٹھتی جاتی ہیں ساری امیدیں خدشۂ جسم و جاں نہیں اٹھتا ہاتھ اٹھتے رہے ہیں مجھ پر شاہؔ مجھ سے بار زباں نہیں اٹھتا

    مزید پڑھیے

    نیک ہو اور پارسا ہو تم

    نیک ہو اور پارسا ہو تم یہ بھی کہہ دو کہ بے ریا ہو تم دل تمہارا بھی ہے گداختہ کیا یوں تو داؤدی سی صدا ہو تم کیا الگ شے ہو تم خدائی سے اپنے ہونے سے بھی سوا ہو تم کیا ہے بے جا بجا ہے کیا بابا سوچتے بھی کبھی ہو کیا ہو تم بے خدا شاہؔ بھی کہاں کب ہے ہے یہ شہرا کہ با خدا ہو تم

    مزید پڑھیے

    آنے جانے کا ہے یہ رستہ کیوں

    آنے جانے کا ہے یہ رستہ کیوں ہے بچھڑنا اگر تو ملنا کیوں ہاتھ آیا تو پھر پرندہ کیا اور اڑا جو کہیں تو میرا کیوں کس فرشتے کی بات کرتے ہو جب برا ہی نہیں وہ اچھا کیوں ہو کے ناراض مجھ سے کہتے ہیں ظلمتوں کے لئے ہو خطرہ کیوں کیوں نہیں دیکھتا ہوا کا رخ شاہؔ بنتا ہے پھر نشانہ کیوں

    مزید پڑھیے

    رات بھر جاگے سویرے سو گئے

    رات بھر جاگے سویرے سو گئے پھیلتے بڑھتے اندھیرے بو گئے ہاتھ آئی یہ اندھیری رات ہی تھے وہ جو کچھ بھی تھے میرے سو گئے خوف بھر آوازیں ہیں اطراف میں مشعلیں بجھتی ہیں ڈیرے تو گئے ہاتھ میرے تھے وہ میرے ہی تو تھے ہاتھ سے چھوٹے وہ میرے لو گئے شاہؔ اپنے کو میں دیکھوں کس طرح تھے اجالے کے ...

    مزید پڑھیے