کیا کہوں کب دھواں نہیں اٹھتا

کیا کہوں کب دھواں نہیں اٹھتا
مجھ سے اپنا زیاں نہیں اٹھتا


بھینچتے رہتے ہیں در و دیوار
اور دل سے مکاں نہیں اٹھتا


آبرو تھام تھام لیتی ہے
ہاتھ ورنہ کہاں نہیں اٹھتا


اٹھتی جاتی ہیں ساری امیدیں
خدشۂ جسم و جاں نہیں اٹھتا


ہاتھ اٹھتے رہے ہیں مجھ پر شاہؔ
مجھ سے بار زباں نہیں اٹھتا