یاں کے ہونے کو مثالوں کی زمیں چاہیے ہے
یاں کے ہونے کو مثالوں کی زمیں چاہیے ہے
اس کی ہستی کو یہ تمثیل نہیں چاہیے ہے
ہر نشاں اس کا ہے دل میں بھی ہے جلوہ اس کا
ظاہر دیدہ کی تسکیں بھی کہیں چاہیے ہے
جو یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے وہی ہے اچھا
کیوں کہیں اس کو بھی اچھا جو یہیں چاہے ہے
یادیں آباد زمانوں کی ہیں آباد اس میں
ہے خرابہ پہ اسے مجھ سا مکیں چاہیے ہے
کب سمندر نے بجھائی ہے کوئی پیاس یہاں
شور ہے شاہؔ یہ پیالہ ہی نہیں چاہیے ہے