Shad Lakhnavi

شاد لکھنوی

  • 1805 - 1899

شاد لکھنوی کی غزل

    دیکھ کر روئے صنم کو نہ بہل جاؤں گا

    دیکھ کر روئے صنم کو نہ بہل جاؤں گا مرتے دم لے کے سنبھالا تو سنبھل جاؤں گا تن کفن پوش تو ہو اور ہی پیراہن میں اجلے کپڑے میں بدلتے ہی بدل جاؤں گا چمن دہر میں وہ برگ خزانی ہوں میں گر نہ برباد ہوا آگ میں جل جاؤں گا ہوں وہ ثابت قدم اے چرخ جو بھونچال بھی آئے چاہے ٹل جائے زمیں میں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    نظروں سے گلوں کی نونہالو

    نظروں سے گلوں کی نونہالو شبنم کی طرح گرا سنبھالو مانو رہ سرکشی نکالو پگڑی مہ و مہر کی اچھالو صیاد خفا ہے بلبل و کبک خاموش رہو نہ بولو چالو اصنام میں شان حق عیاں ہے آنکھیں ہیں تو ان کو دیکھو بھالو ٹھہرو کوئی دم کے مہمان ہیں چلتے تو ہیں ہم بھی چلنے والو مشتاق لقا ہے اک خدائی اب ...

    مزید پڑھیے

    خلش خار ہو وحشت میں کہ غم ٹوٹ پڑے

    خلش خار ہو وحشت میں کہ غم ٹوٹ پڑے پر پھپھولوں میں الٰہی نہ مرے پھوٹ پڑے دن دو پہرے ہی شفق شام جہاں میں پھولے آسماں پر لب لعلیں کے اگر چھوٹ پڑے دم نکل جائے خفا ہو کے غم کاکل میں جو پڑے حلق میں پھندا وہ گلا گھوٹ پڑے ہجر ساقی میں دہن سے مرے اچھو ہو کر جو پیوں آب بقا بھی وہ نکل گھوٹ ...

    مزید پڑھیے

    بوسہ زلف دوتا کا دو

    بوسہ زلف دوتا کا دو روحوں بلائیں صدقہ دو رد و بدل کیا بوسہ دو لیتا ایک نہ دیتا دو زلف سیہ کے مجرم ہیں کالے پانی بھجوا دو یہ جائیں گے مثل حباب چھوٹنے دل کا چھالا دو مشرک کیا ہو وحدت میں ایک کو دیکھے جھٹکا دو گھر میں بلا کے قتل کرو دروازے میں تیغا دو ہم پہ کھلا ہے راز کمر اور ...

    مزید پڑھیے

    جان یا دل نذر کرنا چاہئے

    جان یا دل نذر کرنا چاہئے کچھ نہ کچھ اس بت کو پوجا چاہئے دل شگافی چاہئے مثل قلم زخم سینے کا نہ سینا چاہئے کاٹ کر سر پار بیڑا کیجیئے تیغ کے گھاٹوں اتارا چاہئے میں فدا ہوں گر تمہیں باور نہ ہو آزما دیکھو اسے کیا چاہئے کشتیٔ مے کا لب جو دور ہو کھیلنا مستوں نواڑا چاہئے مست سر جوش ...

    مزید پڑھیے

    جوں سبزہ رہے اگتے ہی پیروں کے تلے ہم

    جوں سبزہ رہے اگتے ہی پیروں کے تلے ہم برسات کے موسم میں بھی پھولے نہ پھلے ہم محروم چمن مرغ قفس بند ازل ہیں صیاد کے پنجرے میں ہیں بچپن سے پلے ہم جب غیر سے ہوتا ہے وہ سفاک بغل گیر تیغ صفہانی کو لگاتے ہیں گلے ہم چکی کی طرح چرخ نے پیسا تو ہمیں کو دانا ہیں زمانے کے گئے اس سے ولی ہم یہ ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے دو چار بزم میں دھیان اور کی طرف

    ہم سے دو چار بزم میں دھیان اور کی طرف آنکھ اس طرف لگائی ہے کان اور کی طرف ابرو سے ہم شہید مژہ سے رقیب ہوں تلوار ادھر لگائیے بان اور کی طرف صید زبوں وہ ہوں جو رواں تیر ادھر ہوا اس کی قضا نے بولی کمان اور کی طرف ہم بیکسوں کی قبر سوا ہرگز اے فلک نم گیر کو نہ ابر کے تان اور کی طرف یا ...

    مزید پڑھیے

    کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر

    کیا یہ بت بیٹھیں گے خدا بن کر اللہ اللہ اے برہمن کر ہوگا برباد مثل کاغذ باد سر کو کھینچا فلک پہ گر تن کر خنجر و تیغ کر گلے پہ رواں پھیر کر آنکھ کج نہ چتون کر اے تری شان ہو گیا انساں ایک مشت غبار بن ٹھن کر پاک دامن ہے مریم ثانی چشم تر طفل اشک کو جن کر دل کے ڈسنے میں ہے یہ کالا ...

    مزید پڑھیے

    میں وہ بے چارہ ہوں جس سے بے کسی مانوس ہے

    میں وہ بے چارہ ہوں جس سے بے کسی مانوس ہے جو ہتھیلی ہاتھ میں ہے اک کف افسوس ہے اس قدر رنج سیہ بختی سے ہوں زار و نحیف دو قدم چلنا بھی جس کو ایک کالے کوس ہے آسماں نان جویں بھی دے تو نعمت جانیے پاؤ روٹی بھی جو ہاتھ آئے سمجھے توس ہے غیر کے خاطر دھرا جاتا ہوں میں مفت خدا کوئی ملزم ہو ...

    مزید پڑھیے

    اس نے افشاں جو چنی رات کو تنہا ہو کر

    اس نے افشاں جو چنی رات کو تنہا ہو کر آسماں ٹوٹ پڑا مجھ پہ ستارہ ہو کر بھوکیں محلوں پہ نہ منعم سگ دنیا ہو کر ہڈیاں قبر میں رہ جائیں گی چونا ہو کر وہ جلے تن ہوں مرے پر بھی جو مٹی میں ملوں گرد باد اٹھنے لگیں آگ بگولا ہو کر مے کشی میں جو ہوا چشم خماری کا خیال رہ گیا جام ہتھیلی کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5