Shabnam Munavari

شبنم مناوری

شبنم مناوری کی نظم

    دائروں کی فصیلوں سے ڈرتے ہو

    دائرے سے ٹوٹ کر گر پڑیں گے ابھی اور ہم اپنے ہونے کی پاداش میں بوڑھی صدیوں کی ٹوٹی ہوئی قوس پر ایک تاریک نقطے میں کھو جائیں گے دائروں کے مقابر میں سو جائیں گے دائرے خواہشوں کے مقابر سہی دائرے آرزو کے مینار ہیں دائرے بے ثباتی کے مرقد نہیں دائرے گزرے وقتوں کے آثار ہیں دائروں کی ...

    مزید پڑھیے

    ڈوبتی کرنیں

    وہ پیوستہ نگاہیں اپنے سینے میں اتر جائیں ترستی آتما کو لمحہ بھر تو چین آ جائے بکھرتی ساعتیں پھر ایک نقطہ میں سمٹ جائیں مچلتی چاندی کہسار کے دامن پہ لہرائے فلک کے نیلگوں ساگر سراپا نور بن جائیں مگر میں نے سنا ہے چاندنی جب یوں اترتی ہے تو نیلے پانیوں میں گونجتی موجیں الجھتی ...

    مزید پڑھیے