شبانہ یوسف کی غزل

    چپ ہیں پاؤں تو رہ گزر خاموش

    چپ ہیں پاؤں تو رہ گزر خاموش وقت کی ہیر کا سفر خاموش ہجر کی بد نصیب گلیوں میں چاند پھرتا ہے رات بھر خاموش کون نکلا ہے خانۂ دل سے کچھ دنوں سے ہیں بام و در خاموش کوئی ہنگامہ بولتا ہی نہیں شام کے لب پہ چپ سحر خاموش یاد کے پر ملال موسم میں پھول خوشبو ہوا شجر خاموش ایک کھڑکی سے ...

    مزید پڑھیے

    ہے کوئی درد مسلسل رواں دواں مجھ میں

    ہے کوئی درد مسلسل رواں دواں مجھ میں بنا لیا ہے اداسی نے اک مکاں مجھ میں ملا ہے اذن سخن کی مسافتوں کا پھر کھلے ہوئے ہیں تخیل کے بادباں مجھ میں سحابی شام سر چشم پھیلتے جگنو کسی خیال نے بو دی یہ کہکشاں مجھ میں مہاجرت یہ شجر در شجر ہواؤں کی بسائے جاتی ہے خانہ بدوشیاں مجھ میں عجیب ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی بات تو پرانی ہے

    عشق کی بات تو پرانی ہے روز لیکن نئی کہانی ہے پیار کے قصے میں ہیں دو ہی لفظ ایک ہے عشق اک جوانی ہے راہبر بن گیا ہے خود رہزن کس قدر دکھ بھری کہانی ہے تیرے خط عمر بھر کا حاصل ہیں چوڑی اک کانچ کی نشانی ہے ٹوٹتی سانس کی حکایت کیا جیسے صحرا میں بوند پانی ہے

    مزید پڑھیے

    یہ اپنے آپ پہ تعزیر کر رہی ہوں میں

    یہ اپنے آپ پہ تعزیر کر رہی ہوں میں کہ اپنی سوچ کو زنجیر کر رہی ہوں میں ہواؤں سے بھی نبھانی ہے دوستی مجھ کو دئے کا لفظ بھی تحریر کر رہی ہوں میں نہ جانے کب سے بدن تھے ادھورے خوابوں کے تمھاری آنکھ میں تعبیر کر رہی ہوں میں دریچہ کھولے ہوئے رنگ اور خوشبو کا سہانی شام کو تصویر کر رہی ...

    مزید پڑھیے

    ہم اگر سچ کے انہیں قصے سنانے لگ جائیں

    ہم اگر سچ کے انہیں قصے سنانے لگ جائیں لوگ تو پھر ہمیں محفل سے اٹھانے لگ جائیں یاد بھی آج نہیں ٹھیک طرح سے جو شخص ہم اسے بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں شام ہوتے ہی کوئی خوشبو دریچہ کھولے اور پھر بیتے ہوئے لمحے ستانے لگ جائیں خود چراغوں کو اندھیروں کی ضرورت ہے بہت روشنی ہو تو ...

    مزید پڑھیے

    اسی کے قرب میں رہ کر ہری بھری ہوئی ہے

    اسی کے قرب میں رہ کر ہری بھری ہوئی ہے سہارے پیڑ کے یہ بیل جو کھڑی ہوئی ہے ابھی سے چھوٹی ہوئی جا رہی ہیں دیواریں ابھی تو بیٹی ذرا سی مری بڑی ہوئی ہے بنا کے گھونسلہ چڑیا شجر کی بانہوں میں نہ جانے کس لیے آندھی سے ڈری ہوئی ہے ابھی تو پہلے سفر کی تھکن ہے پاؤں میں کہ پھر سے جوتی پہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ تو سوچا ہی نہیں اس کو جدا کرتے ہوئے

    یہ تو سوچا ہی نہیں اس کو جدا کرتے ہوئے چن لیا ہے غم بھی خوشیوں کو رہا کرتے ہوئے جن چراغوں پر بھروسہ تھا انھوں نے آخرش سازشیں کر لیں ہواؤں سے دغا کرتے ہوئے آنکھ کے صندوقچے میں بند ہے اک سیل درد ڈر رہی ہوں قفل ان پلکوں کے وا کرتے ہوئے جانتی تھی کب بھٹکتی ہی رہے گی در بہ در ہم سفر ...

    مزید پڑھیے

    حصار ذات میں سارا جہان ہونا تھا

    حصار ذات میں سارا جہان ہونا تھا قریب ایسے تجھے میری جان ہونا تھا تری جبیں پہ شکن کیوں وصال لمحے میں محبتوں کا یہاں تو نشان ہونا تھا تمہارے چھونے سے کچھ روشنی بدن کو ملی وگرنہ اس کو فقط راکھ دان ہونا تھا تمہاری نفرتوں نے مٹی میں ملا ڈالا جو خواب تارا سا پلکوں کی شان ہونا ...

    مزید پڑھیے

    اک مہکتے گلاب جیسا ہے

    اک مہکتے گلاب جیسا ہے خوبصورت سے خواب جیسا ہے میں اسے پڑھتی ہوں محبت سے اس کا چہرہ کتاب جیسا ہے بے یقینی ہی بے یقینی ہے ہر سمندر سراب جیسا ہے میں بھٹکتی ہوں کیوں اندھیروں میں وہ اگر آفتاب جیسا ہے ڈوبتی جائے زیست کی ناؤ ہجر لمحہ چناب جیسا ہے میں حقائق بیان کر دوں گی یہ گنہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    لوٹ آئے گا کسی شام یہی لگتا ہے

    لوٹ آئے گا کسی شام یہی لگتا ہے جگمگائیں گے در و بام یہی لگتا ہے زیست کی راہ میں تنہا جو بھٹکتی ہوں میں یہ وفاؤں کا ہے انعام یہی لگتا ہے ایک مدت سے مسلسل ہوں سفر میں لیکن منزل شوق ہے دو گام یہی لگتا ہے اک کلی بر سر پیکار خزاؤں سے ہے یہ نہیں واقف انجام یہی لگتا ہے میرے آنے کی خبر ...

    مزید پڑھیے