چپ ہیں پاؤں تو رہ گزر خاموش
چپ ہیں پاؤں تو رہ گزر خاموش
وقت کی ہیر کا سفر خاموش
ہجر کی بد نصیب گلیوں میں
چاند پھرتا ہے رات بھر خاموش
کون نکلا ہے خانۂ دل سے
کچھ دنوں سے ہیں بام و در خاموش
کوئی ہنگامہ بولتا ہی نہیں
شام کے لب پہ چپ سحر خاموش
یاد کے پر ملال موسم میں
پھول خوشبو ہوا شجر خاموش
ایک کھڑکی سے اجنبی آنکھیں
گفتگو کرتی ہیں مگر خاموش
کیوں شبانہؔ مہاجروں کی طرح
پھر رہی ہو نگر نگر خاموش