Sayyad Ahmad Hussain Shafiq Lakhnavi

سید احمد حسین شفیق لکھنوی

سید احمد حسین شفیق لکھنوی کی غزل

    صبر کہتا ہے کہ رونا کیسا

    صبر کہتا ہے کہ رونا کیسا ہجر میں جان کا کھونا کیسا غیر نے جھوٹ کہا تھا مجھ سے یار کا گھر میں نہ ہونا کیسا درد سے تیر جگر کا کھینچو خون میں ہاتھ ڈبونا کیسا ہجر کی رات بری ہوتی ہے آہ رکتی نہیں سونا کیسا عشق میں کوئی بشر لائق ہو اس میں برباد نہ ہونا کیسا بعد مرنے کے جو تڑپا مرا ...

    مزید پڑھیے

    تذکرہ میری جوانی کا وہاں کام آیا

    تذکرہ میری جوانی کا وہاں کام آیا اس نے انگڑائی لی جس وقت مرا نام آیا قتل نامہ جو ضرورت سے اٹھایا اس نے مسکرانے لگا جس وقت مرا نام آیا دل کو پامال کیا اس کی حقیقت کیا تھی آپ کے نام کا تھا آپ ہی کے کام آیا عشق بازی میں مری دوستو اتنی تھی حیات دل لگانا تھا کہ بس موت کا پیغام ...

    مزید پڑھیے

    اتفاقاً ہوئی ساقی تری گفتار غلط

    اتفاقاً ہوئی ساقی تری گفتار غلط جیسے کہنے لگا ہر بات کو مے خوار غلط تم کو ہوتا ہے یقیں ہوتی ہے تکرار غلط روز اک بات کہا کرتے ہیں اغیار غلط دل مرا تاکا تھا اور زخم جگر پر مارا کیا ترا ہاتھ پڑا آج ستم گار غلط سر مرا کاٹ لے جلاد نہ اف نکلے گی کبھی کہنے کا نہیں تیرا وفادار غلط ہوش ...

    مزید پڑھیے

    اس کے کوچہ سے تو میں بے سر و ساماں نکلا

    اس کے کوچہ سے تو میں بے سر و ساماں نکلا حشر کر دوں گا اگر قبر سے عریاں نکلا منتظم غیر ہوئے لاش ترے در سے اٹھی حیف گھر سے نہ مگر تو پئے ساماں نکلا آ کے اغیار نے کی دفن و کفن کی تدبیر دار دنیا سے یہ میں بے سر و ساماں نکلا مہ نو دیکھتے ہی ہاتھ بڑھائے سب نے شکر ہے یہ ترے وحشی کا گریباں ...

    مزید پڑھیے

    سمجھ میں کچھ نہیں آتا معاملہ دل کا

    سمجھ میں کچھ نہیں آتا معاملہ دل کا حضور آئیں تو ہو جائے فیصلہ دل کا تڑپ جو بڑھ گئی معشوقوں نے جگر تھامے اثر دکھایا تو ہونے لگا گلہ دل کا یہ ان سے کہتا ہے ہنس ہنس کے ان کا دیوانہ دکھاؤں گا تمہیں اک روز حوصلہ دل کا کریم تو مری مقتل میں آبرو رکھنا کہ ان کے تیر سے ہوگا مقابلہ دل ...

    مزید پڑھیے