اتفاقاً ہوئی ساقی تری گفتار غلط

اتفاقاً ہوئی ساقی تری گفتار غلط
جیسے کہنے لگا ہر بات کو مے خوار غلط


تم کو ہوتا ہے یقیں ہوتی ہے تکرار غلط
روز اک بات کہا کرتے ہیں اغیار غلط


دل مرا تاکا تھا اور زخم جگر پر مارا
کیا ترا ہاتھ پڑا آج ستم گار غلط


سر مرا کاٹ لے جلاد نہ اف نکلے گی
کبھی کہنے کا نہیں تیرا وفادار غلط


ہوش میں آ کے لگا زخم ذرا او قاتل
تیرے گھبرانے سے پڑ جاتی ہے تلوار غلط


جو وہ کہتا ہے مسیحا تو یقیں لا اس کو
حال کہنے کا نہیں ہے ترا بیمار غلط


وہ جو کچھ کہتے ہیں اغیار وہی کہتے ہیں
اپنی ہم بات کو کہہ دیتے ہیں ناچار غلط


چھیڑنے کو انہیں میں بات کئے جاتا ہوں
میرے کہنے کو وہ کہہ دیتے ہیں ہر بار غلط


روز کہتا ہے نہ جاؤں گا میں ان زلفوں میں
دل ناداں ترا ہو جاتا ہے انکار غلط


قبر میں آنے کہا ہے تو شفیقؔ آئے گا
کبھی کہنے کا نہیں میرا مددگار غلط