Sayed Safi Hasan

سید صفی حسن

سید صفی حسن کی غزل

    آنکھوں کے دریچوں سے سراب اترے ہیں کتنے

    آنکھوں کے دریچوں سے سراب اترے ہیں کتنے اک جاں ہے مگر اس پہ عذاب اترے ہیں کتنے شاید تمہیں کھوئی ہوئی جنت کہیں مل جائے دیکھو مری ان آنکھوں میں خواب اترے ہیں کتنے جب ساعت احساں تھی تو اک بوند نہ برسی جب اٹھ گئے پیاسے تو سحاب اترے ہیں کتنے دنیا تجھے میں دیکھوں تو کن آنکھوں سے ...

    مزید پڑھیے

    دنیا نے سچ کو جھوٹ کہا کچھ نہیں ہوا

    دنیا نے سچ کو جھوٹ کہا کچھ نہیں ہوا اتنا لہو زمیں پہ بہا کچھ نہیں ہوا پہلے بھی کربلا میں مشیت خموش تھی اب اک چراغ اور بجھا کچھ نہیں ہوا فرعون مصلحت سر طور نظر رہے موسیٰ بھی لے کے آئے عصا کچھ نہیں ہوا میرے لہو کو چہرے پہ مل کر مری زمیں دیتی رہی فلک کو صدا کچھ نہیں ہوا تثلیث بے ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو سب کچھ ہے اسے دور بٹھا رکھا ہے

    وہ جو سب کچھ ہے اسے دور بٹھا رکھا ہے خواہشیں ہیں جنہیں معبود بنا رکھا ہے کچھ تو ہے تیرگیٔ دل میں اجالے کے لیے تو نہیں ہے تری یادوں کو بلا رکھا ہے ہر کوئی اپنے ہی پرتو میں ہے سرگرم سفر میں نے ماحول کو آئینہ دکھا رکھا ہے اس کا باطن بھی ہے خورشید قیامت کی طرح یہ جو اک طاق میں چھوٹا ...

    مزید پڑھیے

    سروں پہ دھوپ تو آنکھوں میں خواب پتھر کے

    سروں پہ دھوپ تو آنکھوں میں خواب پتھر کے وہ سنگ دل تھے سو اترے عذاب پتھر کے ہوائے کوچۂ جاناں سے حال پوچھا تھا اسی خطا پہ ملے ہیں جواب پتھر کے یہ کون سنگ صفت پانیوں میں اترا ہے اٹھے ہیں آب رواں سے حباب پتھر کے ہوائیں بانجھ زمیں بے ثمر نظر ویراں کہ اب کے برسے ہوں جیسے سحاب پتھر ...

    مزید پڑھیے

    خوں رلاتی رہی اک عمر شب تار مجھے

    خوں رلاتی رہی اک عمر شب تار مجھے تب کہیں جا کے ملے صبح کے آثار مجھے میں نہ یوسف ہوں نہ یہ شہر زلیخا یارو کیوں چلے آئے ہو لے کر سر بازار مجھے گھر میں لائی تو ہے بیتابیٔ دل دیکھ ذرا کہیں پہچان نہ لیں یہ در و دیوار مجھے میں تو ہوں سرحد امکاں سے گزرنے والا پا سکے گی نہ کبھی وقت کی ...

    مزید پڑھیے