وہ جو سب کچھ ہے اسے دور بٹھا رکھا ہے
وہ جو سب کچھ ہے اسے دور بٹھا رکھا ہے
خواہشیں ہیں جنہیں معبود بنا رکھا ہے
کچھ تو ہے تیرگیٔ دل میں اجالے کے لیے
تو نہیں ہے تری یادوں کو بلا رکھا ہے
ہر کوئی اپنے ہی پرتو میں ہے سرگرم سفر
میں نے ماحول کو آئینہ دکھا رکھا ہے
اس کا باطن بھی ہے خورشید قیامت کی طرح
یہ جو اک طاق میں چھوٹا سا دیا رکھا ہے
ایک لحظہ مری تنہائی میں آ کر دیکھو
میں نے زنداں میں بھرا شہر بسا رکھا ہے
سر دربار جو پوچھو تو مرا جرم ہے یہ
میں نے کیوں شہر میں آنکھوں کو کھلا رکھا ہے
کبھی دو بول محبت کے بھی اے جان صفیؔ
جب بھی دیکھو ترے ہونٹوں پہ لگا رکھا ہے