خوں رلاتی رہی اک عمر شب تار مجھے
خوں رلاتی رہی اک عمر شب تار مجھے
تب کہیں جا کے ملے صبح کے آثار مجھے
میں نہ یوسف ہوں نہ یہ شہر زلیخا یارو
کیوں چلے آئے ہو لے کر سر بازار مجھے
گھر میں لائی تو ہے بیتابیٔ دل دیکھ ذرا
کہیں پہچان نہ لیں یہ در و دیوار مجھے
میں تو ہوں سرحد امکاں سے گزرنے والا
پا سکے گی نہ کبھی وقت کی رفتار مجھے
تہی دامن ہوں مگر اہل ہوس کے آگے
روکتا ہے لب اظہار سے پندار مجھے
میرے دشمن تو کبھی وار نہ کرتے لیکن
میرے اپنوں نے صفیؔ کر دیا لاچار مجھے