Sarwat Zehra

ثروت زہرا

ممتاز پاکستانی شاعرات میں نمایاں، دبئی میں مقیم

Prominent women poet from Pakistan, living in Dubai.

ثروت زہرا کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    جب آہ بھی چپ ہو تو یہ صحرائی کرے کیا

    جب آہ بھی چپ ہو تو یہ صحرائی کرے کیا سر پھوڑے نہ خود سے تو یہ تنہائی کرے کیا گزری جو ادھر سے تو گھٹن سے یہ مرے گی حبس دل وحشی میں یہ پروائی کرے کیا کہتی ہے جو کہنے دو یہ دنیا مجھے کیا ہے زندانی احساس میں رسوائی کرے کیا ہر حسن و ادا دھنس گئے آئینے کے اندر جب راکھ ہوں آنکھیں تو یہ ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ خاک! ذرا پیراہن بدلنا تو

    نگاہ خاک! ذرا پیراہن بدلنا تو وبال روح مرا یہ بدن بدلنا تو حقیقتوں کے سفر میں بہت اکیلی ہوں مجاز عشق! ذرا بانکپن بدلنا تو جنوں کے بوجھ سے تھکنے لگا زمان و خلا غریب شوق ذرا پھر وطن بدلنا تو نیا ملے تو کوئی ذائقہ تمنا کو دل تباہ مری یہ جلن بدلنا تو سلگ رہی ہوں ابھی بھی مگر مزا ہی ...

    مزید پڑھیے

    وقت بھی اب مرا مرہم نہیں ہونے پاتا

    وقت بھی اب مرا مرہم نہیں ہونے پاتا درد کیسا ہے جو مدھم نہیں ہونے پاتا کیفیت کوئی ملے ہم نے سنبھالی ایسے غم کبھی غم سے بھی مدغم نہیں ہونے پاتا میرے الفاظ کے یہ ہاتھ بھی شل ہوں جیسے ہو رہا ہے جو وہ ماتم نہیں ہونے پاتا دل کے دریا نے کناروں سے محبت کر لی تیز بہتا ہے مگر کم نہیں ہونے ...

    مزید پڑھیے

    ہزار ٹوٹے ہوئے زاویوں میں بیٹھی ہوں

    ہزار ٹوٹے ہوئے زاویوں میں بیٹھی ہوں خیال و خواب کی پرچھائیوں میں بیٹھی ہوں تمہاری آس کی چادر سے منہ چھپائے ہوئے پکارتی ہوئی رسوائیوں میں بیٹھی ہوں ہر ایک سمت صدائیں ہیں چپ چٹخنے کی خلا میں چیختی تنہائیوں میں بیٹھی ہوں نگاہ و دل میں اگی دھوپ کو بجھاتی ہوئی تمہارے ہجر کی ...

    مزید پڑھیے

    تلخیٔ جام ڈولنے جیسی

    تلخیٔ جام ڈولنے جیسی تشنگی ہونٹ کھولنے جیسی اس قدر شور روح میں برپا خاموشی میری بولنے جیسی ساعت شوق بو گیا ہے کوئی خون میں زہر گھولنے جیسی لو یہ امید پھر جگاتی ہے ایک آہٹ ٹٹولنے جیسی خواب اور خواہشوں کی قسمت ہے خالی رستوں پہ رولنے جیسی

    مزید پڑھیے

تمام

22 نظم (Nazm)

    عریضے کی ڈالی

    تری نرم لہروں پہ رکھے دیے اپنے باقی کے ہم راہ گم ہو چکے ہیں دعاؤں، تمناؤں، خوابوں کا موسم اذیت کے کیچڑ میں لتھڑا پڑا ہے خطوں کے لفافے حروف و معنی کے رنگوں سے خالی پڑے ہیں کناروں سے ڈالی گئی درخت کی سرخ رو سازشی پتیاں راستوں کے نشان کھو چکی ہیں مگر۔۔۔ اگلے دن کے حسیں خواب۔۔۔ عریضے ...

    مزید پڑھیے

    کاش

    کاش سمجھوتوں کو کانچ کی چوڑیوں کی طرح پیس کر کھایا جا سکتا تنہائی کے زہر کو شیو کے نیل کنٹھ کی طرح گلے میں رکھ کر جیا جا سکتا کاش پیاس کو اسنووہائٹ کے نصف سیب کی طرح حلق میں دبا کر موت کی نیند کا ابدی وقفہ لیا جا سکتا مگر یہ سمجھوتے تو میرے خون کو زہر کی طرح نیلا کرتے جا رے ہیں میری ...

    مزید پڑھیے

    آگہی کا جال

    مرے اپنے حروف کا جال مری روح پر تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اب تو مری روح کی ہڈیاں چٹخ رہی ہیں اور سراب آگہی کے سامنے سر پٹخ رہی ہیں ''سکوت'' کے حروف جنہوں نے میری سماعتوں سے شور کا لہو نچوڑ لیا ہے یہ ''روشنی'' کے حروف کہ جنہوں نے مری آنکھ کے کانچ کے دیوں میں رکھا ہوا تیل پی لیا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    گمشدہ لمحے کی تلاش

    کسی آنکھ کے پپوٹوں کے کھلنے اور بند ہونے کے درمیان ایک روشنی کا آسمان اپنی چھب دکھا کے کہیں گم ہو گیا ہے اور میں کبھی اپنی آنکھ کی پتلیوں کے جاگتے ہوئے اندھیروں میں اسے ڈھونڈتی ہوں اور کبھی کھلی آنکھ کے قلم سے لکھے گئے عکس میں اسے تراشتی ہوں مگر وہ روشنی کا آسمان مجھے مل نہیں رہا ...

    مزید پڑھیے

    فنا کی انجمن سے

    بڑی گھٹن ہے سوال ہستی تو ہانپتے ہیں نظر کی عریانیاں ملی ہیں کسے کہوں کہ یہ مرے جذبوں کا باسی پن ہے بڑی گھٹن ہے جو سر بکف تھے، گرے پڑے ہیں جو گل شفق تھے، وہ نالیوں سے ابل رہے ہیں کسی جہنم کی سی جلن ہے بڑی گھٹن ہے کوئی تو روزن کوئی دریچہ کہیں دراڑوں سے کوئی رستہ فنا کی لمحوں کی ...

    مزید پڑھیے

تمام