سرور ساجد کی غزل

    ہے اب دشمن وہی اپنا بہت تھا

    ہے اب دشمن وہی اپنا بہت تھا اسے ہم نے کبھی چاہا بہت تھا اندھیرا ہی اندھیرا دور تک تھا بچھڑ کے اس سے میں رویا بہت تھا ابھرنا چاہتے تھے اور ڈوبے سمندر پیار کا گہرا بہت تھا زمانے کو بھلا دینے کی خاطر تصور میں ترا چہرہ بہت تھا ہمارے ساتھ ساجدؔ نبھ نہ پائی مگر وہ دوست تو اچھا بہت ...

    مزید پڑھیے

    اسیری سے تو یہ اچھا ہے مر جا

    اسیری سے تو یہ اچھا ہے مر جا ہوا کے وار سے پہلے بکھر جا تجھے کھا جائے گی یہ بے پناہی سمندر آ مرے پیالے میں بھر جا تجھے شاید یہ دنیا مان جائے اسی ضد میں کبھی حد سے گزر جا بچھڑ جانے پہ آخر کیوں تلا ہے قدم کو روک لے اب بھی ٹھہر جا بہت سفاک ہیں یہ لوگ ساجدؔ انہی میں رہ انہیں حیران کر ...

    مزید پڑھیے