ہے اب دشمن وہی اپنا بہت تھا
ہے اب دشمن وہی اپنا بہت تھا
اسے ہم نے کبھی چاہا بہت تھا
اندھیرا ہی اندھیرا دور تک تھا
بچھڑ کے اس سے میں رویا بہت تھا
ابھرنا چاہتے تھے اور ڈوبے
سمندر پیار کا گہرا بہت تھا
زمانے کو بھلا دینے کی خاطر
تصور میں ترا چہرہ بہت تھا
ہمارے ساتھ ساجدؔ نبھ نہ پائی
مگر وہ دوست تو اچھا بہت تھا