سرور عالم راز کی غزل

    بے کیف جوانی ہے بے درد زمانہ ہے (ردیف .. ')

    بے کیف جوانی ہے بے درد زمانہ ہے ناکام محبت کا اتنا ہی فسانہ ہے ساون کا مہینہ ہے موسم بھی سہانا ہے آ جاؤ جو آنا ہے آ جاؤ جو آنا ہے اے کاش کوئی کہہ دے اس چشم فسوں گر سے نظروں کا چرانا ہی نظروں کا ملانا ہے آغاز محبت سے انجام محبت تک ''اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے''

    مزید پڑھیے

    جب جب وہ سر طور تمنا نظر آیا

    جب جب وہ سر طور تمنا نظر آیا میں کیسے کہوں وہ مجھے کیا کیا نظر آیا ہستی کے در و بست کا مارا نظر آیا ہر شخص تماشہ ہی تماشا نظر آیا دیکھا جو زمانہ کو کبھی اچھی نظر سے جو بھی نظر آیا ہمیں اچھا نظر آیا کعبہ میں جو دیکھا وہی بت خانے میں پایا جیسا وہ مرے دل میں تھا ویسا نظر آیا کیا یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2