جب جب وہ سر طور تمنا نظر آیا

جب جب وہ سر طور تمنا نظر آیا
میں کیسے کہوں وہ مجھے کیا کیا نظر آیا


ہستی کے در و بست کا مارا نظر آیا
ہر شخص تماشہ ہی تماشا نظر آیا


دیکھا جو زمانہ کو کبھی اچھی نظر سے
جو بھی نظر آیا ہمیں اچھا نظر آیا


کعبہ میں جو دیکھا وہی بت خانے میں پایا
جیسا وہ مرے دل میں تھا ویسا نظر آیا


کیا یہ بھی محبت کے تقاضوں میں ہے شامل
دریا میں نظر آیا تو صحرا نظر آیا


اوروں پہ بڑھے سنگ ملامت جو لیے ہم
ہر چہرے میں کیوں اپنا ہی چہرہ نظر آیا


ڈھونڈا ہی نہیں ہم نے تمہارا کوئی ہمسر
ہاں تم کہو تم کو کوئی ہم سا نظر آیا


یوں اور بہت عیب ہیں سرورؔ میں ولیکن
کم بخت محبت میں تو یکتا نظر آیا