Sarshar Siddiqui

سرشار صدیقی

سرشار صدیقی کی نظم

    طفیلی سیارہ

    وہ اک لمحہ جس کی تلاش میں میں نے اپنے ارض و سما کی پر اسرار کشش سے نکل کر ایک خیال افروز خلا میں جست لگا دی اور اپنے محور سے بچھڑ کر اس بے چہرہ کاہکشاں کے دوسرے سیاروں کے اثر میں گردش کرنے اور بھٹکتے رہنے میں اک عمر گنوا دی وہ لمحہ اک جگنو بن کر جلتا بجھتا اب بھی مری امیدوں کی خوش ...

    مزید پڑھیے

    ہم انجام

    مری مانند وہ بھی ظلمت شب کی مسافر تھی اندھیرے راستوں میں صبح نو کے خواب آنکھوں میں سجائے بہ نام منزل بے نام افتاں اور خیزاں قدم اپنے بڑھائے سحر کا خواب آنکھوں میں سجائے سفر جتنا بھی ہم طے کر رہے تھے مسافت تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی سکوت صبح کی مایوسیوں میں جو اک تنہا رفیق رہروی ...

    مزید پڑھیے

    ذرہ

    دشت کی بے پایاں وسعت میں کوہساروں کے دامن میں ذرہ اپنے ہونے اور نہ ہونے کا دکھ جھیل رہا تھا ذرہ جو خود اپنے وجود میں ایک مکمل دنیا ہے جس کے بطن میں سارا نظام شمس و قمر پوشیدہ ہے جس کی وحدت کے سینے میں نظر نہ آنے والی کثرت کا جلوہ ہے اہل نظر نے پچھلی صدی میں اس پامال ضمیر کے اندر اس ...

    مزید پڑھیے

    ھوالشافی

    اگر کبھی یہ گمان گزرا کہ زندگی تلخ ہو رہی ہے تو اس مسیحا نفس کو ڈھونڈا جو اس مرض کا طبیب حاذق ہے جس کے شیریں لبوں میں نمکین عارضوں میں غزال آنکھوں کی گہری جھیلوں میں آب حیواں چھلک رہا ہے جو میری تنہائی کا مداوا مرے مرض کے لیے دوا ہے کہ شربت‌ دید ہی تو ان تلخ کامیوں کے لیے شفا ہے

    مزید پڑھیے