Sarshar Siddiqui

سرشار صدیقی

سرشار صدیقی کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    خیال ہجر مسلسل میں آئے ہیں کیا کیا

    خیال ہجر مسلسل میں آئے ہیں کیا کیا مری وفا کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا نہ صرف حسن کی معصومیت پہ تھے الزام خلوص عشق پہ بھی حرف آئے ہیں کیا کیا جنوں کے نام پہ شورش کی تہمتیں رکھ کر خرد نے خود بھی تو فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا اس اک نظر سے بظاہر جو ملتفت بھی نہ تھی مری نگاہ نے پیغام ...

    مزید پڑھیے

    شہر میں جب بھی زلیخا سے خریدار آئے

    شہر میں جب بھی زلیخا سے خریدار آئے کتنے یوسف تھے کہ خود ہی سر بازار آئے چھیڑ دی قامت و گیسو کی حکایت ہم نے کسی صورت سے تو ذکر رسن و دار آئے جب بھی زنداں میں اسیروں کو ملا مژدۂ گل میری نظروں میں تمہارے لب و رخسار آئے دوسری راہ وفا میں کوئی منزل ہی نہ تھی جو تری بزم سے اٹھے وہ سر ...

    مزید پڑھیے

    چہرے کو بحال کر رہا ہوں

    چہرے کو بحال کر رہا ہوں دنیا کا خیال کر رہا ہوں اک کار محال کر رہا ہوں زندہ ہوں کمال کر رہا ہوں وہ غم جو ابھی ملے نہیں ہیں میں ان کا ملال کر رہا ہوں اشعار بھی دعوت عمل ہیں تقلید بلال کر رہا ہوں تصویر کو آئینہ بنا کر تشریح جمال کر رہا ہوں چہرے پہ جواب چاہتا ہوں آنکھوں سے سوال کر ...

    مزید پڑھیے

    مرے وجود کو اس نے عجب کمال دیا

    مرے وجود کو اس نے عجب کمال دیا کہ مشت خاک تھا افلاک پر اچھال دیا مکاں کو جھوٹے مکینوں سے پاک کرنا تھا سو میں نے اس سے ہر امید کو نکال دیا مری طلب میں تکلف بھی انکسار بھی تھا وہ نکتہ سنج تھا سب میرے حسب حال دیا بدل کے رکھ دیے ہجر و وصال کے مفہوم مجھے تو اس نے بڑی کشمکش میں ڈال ...

    مزید پڑھیے

    کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے

    کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے صاحب دل تو جہاں بھی رہے بدنام رہے کوئی تقریب تو ہو دل کے بہلنے کے لئے تو نہیں ہے تو ترا ذکر ترا نام رہے ہم کو تو راس ہی آئی کسی کمسن کی وفا ہائے وہ لوگ محبت میں جو ناکام رہے اس ارادے سے اٹھایا ہے چھلکتا ہوا جام ہم رہیں آج کہ یہ گردش ایام ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    طفیلی سیارہ

    وہ اک لمحہ جس کی تلاش میں میں نے اپنے ارض و سما کی پر اسرار کشش سے نکل کر ایک خیال افروز خلا میں جست لگا دی اور اپنے محور سے بچھڑ کر اس بے چہرہ کاہکشاں کے دوسرے سیاروں کے اثر میں گردش کرنے اور بھٹکتے رہنے میں اک عمر گنوا دی وہ لمحہ اک جگنو بن کر جلتا بجھتا اب بھی مری امیدوں کی خوش ...

    مزید پڑھیے

    ہم انجام

    مری مانند وہ بھی ظلمت شب کی مسافر تھی اندھیرے راستوں میں صبح نو کے خواب آنکھوں میں سجائے بہ نام منزل بے نام افتاں اور خیزاں قدم اپنے بڑھائے سحر کا خواب آنکھوں میں سجائے سفر جتنا بھی ہم طے کر رہے تھے مسافت تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی سکوت صبح کی مایوسیوں میں جو اک تنہا رفیق رہروی ...

    مزید پڑھیے

    ذرہ

    دشت کی بے پایاں وسعت میں کوہساروں کے دامن میں ذرہ اپنے ہونے اور نہ ہونے کا دکھ جھیل رہا تھا ذرہ جو خود اپنے وجود میں ایک مکمل دنیا ہے جس کے بطن میں سارا نظام شمس و قمر پوشیدہ ہے جس کی وحدت کے سینے میں نظر نہ آنے والی کثرت کا جلوہ ہے اہل نظر نے پچھلی صدی میں اس پامال ضمیر کے اندر اس ...

    مزید پڑھیے

    ھوالشافی

    اگر کبھی یہ گمان گزرا کہ زندگی تلخ ہو رہی ہے تو اس مسیحا نفس کو ڈھونڈا جو اس مرض کا طبیب حاذق ہے جس کے شیریں لبوں میں نمکین عارضوں میں غزال آنکھوں کی گہری جھیلوں میں آب حیواں چھلک رہا ہے جو میری تنہائی کا مداوا مرے مرض کے لیے دوا ہے کہ شربت‌ دید ہی تو ان تلخ کامیوں کے لیے شفا ہے

    مزید پڑھیے