Sarshar Siddiqui

سرشار صدیقی

سرشار صدیقی کی غزل

    خیال ہجر مسلسل میں آئے ہیں کیا کیا

    خیال ہجر مسلسل میں آئے ہیں کیا کیا مری وفا کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا نہ صرف حسن کی معصومیت پہ تھے الزام خلوص عشق پہ بھی حرف آئے ہیں کیا کیا جنوں کے نام پہ شورش کی تہمتیں رکھ کر خرد نے خود بھی تو فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا اس اک نظر سے بظاہر جو ملتفت بھی نہ تھی مری نگاہ نے پیغام ...

    مزید پڑھیے

    شہر میں جب بھی زلیخا سے خریدار آئے

    شہر میں جب بھی زلیخا سے خریدار آئے کتنے یوسف تھے کہ خود ہی سر بازار آئے چھیڑ دی قامت و گیسو کی حکایت ہم نے کسی صورت سے تو ذکر رسن و دار آئے جب بھی زنداں میں اسیروں کو ملا مژدۂ گل میری نظروں میں تمہارے لب و رخسار آئے دوسری راہ وفا میں کوئی منزل ہی نہ تھی جو تری بزم سے اٹھے وہ سر ...

    مزید پڑھیے

    چہرے کو بحال کر رہا ہوں

    چہرے کو بحال کر رہا ہوں دنیا کا خیال کر رہا ہوں اک کار محال کر رہا ہوں زندہ ہوں کمال کر رہا ہوں وہ غم جو ابھی ملے نہیں ہیں میں ان کا ملال کر رہا ہوں اشعار بھی دعوت عمل ہیں تقلید بلال کر رہا ہوں تصویر کو آئینہ بنا کر تشریح جمال کر رہا ہوں چہرے پہ جواب چاہتا ہوں آنکھوں سے سوال کر ...

    مزید پڑھیے

    مرے وجود کو اس نے عجب کمال دیا

    مرے وجود کو اس نے عجب کمال دیا کہ مشت خاک تھا افلاک پر اچھال دیا مکاں کو جھوٹے مکینوں سے پاک کرنا تھا سو میں نے اس سے ہر امید کو نکال دیا مری طلب میں تکلف بھی انکسار بھی تھا وہ نکتہ سنج تھا سب میرے حسب حال دیا بدل کے رکھ دیے ہجر و وصال کے مفہوم مجھے تو اس نے بڑی کشمکش میں ڈال ...

    مزید پڑھیے

    کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے

    کیا ہوا ہم پہ جو اس بزم میں الزام رہے صاحب دل تو جہاں بھی رہے بدنام رہے کوئی تقریب تو ہو دل کے بہلنے کے لئے تو نہیں ہے تو ترا ذکر ترا نام رہے ہم کو تو راس ہی آئی کسی کمسن کی وفا ہائے وہ لوگ محبت میں جو ناکام رہے اس ارادے سے اٹھایا ہے چھلکتا ہوا جام ہم رہیں آج کہ یہ گردش ایام ...

    مزید پڑھیے

    صحرا ہی غنیمت ہے، جو گھر جاؤ گے لوگو

    صحرا ہی غنیمت ہے، جو گھر جاؤ گے لوگو وہ عالم وحشت ہے کہ مر جاؤ گے لوگو یادوں کے تعاقب میں اگر جاؤ گے لوگو میری ہی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے لوگو وہ موج صبا بھی ہو تو ہشیار ہی رہنا سوکھے ہوئے پتے ہو بکھر جاؤ گے لوگو اس خاک پہ موسم تو گزرتے ہی رہے ہیں موسم ہی تو ہو تم بھی گزر جاؤ گے ...

    مزید پڑھیے

    اک حرف شوق لب پہ ہے اور التجا کے ساتھ

    اک حرف شوق لب پہ ہے اور التجا کے ساتھ میں اک نئے سفر پہ ہوں اپنی انا کے ساتھ میں نے عبادتوں کو محبت بنا دیا آنکھیں بتوں کے ساتھ رہیں دل خدا کے ساتھ کس قحط اعتبار سے گزرے ہیں اہل دل رنگ وفا بھی اڑ گیا رنگ حنا کے ساتھ میرا وجود حرف تقاضا بنا ہوا مہر قبول اس کے لبوں پر حیا کے ...

    مزید پڑھیے

    عشق تک اپنی دسترس بھی نہیں

    عشق تک اپنی دسترس بھی نہیں اور دل مائل ہوس بھی نہیں اب کہاں جائیں گے خراب بہار آشیاں بھی نہیں قفس بھی نہیں برق کی بیکسی کو روتا ہوں اب نشیمن میں خار و خس بھی نہیں کس نے دیکھا شگفتگی کا مآل زندگی اتنی دور رس بھی نہیں ہم اسیروں کے واسطے سرشار رسم پابندئ قفس بھی نہیں

    مزید پڑھیے

    میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن

    میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن شب بھر مرے وجود میں مہکا ترا بدن ہوں اپنے ہی ہجوم تمنا میں اجنبی میں اپنے ہی دیار نفس میں جلا وطن سب پتھروں پہ نام لکھے تھے رفیقوں کے ہر زخم سر ہے سنگ ملامت پہ خندہ زن اب دشت بے اماں ہی میں شاید ملے پناہ گھر کی کھلی فضا میں تو بڑھنے لگی ...

    مزید پڑھیے

    خلوت ذات ہے اور انجمن آرائی ہے

    خلوت ذات ہے اور انجمن آرائی ہے بزم سی بزم ہے تنہائی سی تنہائی ہے وہ ہے خاموش مگر اس کے سکوت لب پر رقص کرتا ہوا اک عالم گویائی ہے جب اندھیرے مری آنکھوں کا لہو چاٹ چکے تب ان آنکھوں میں رفاقت کی چمک آئی ہے اب خدا اس کو بنایا ہے تو یاد آتا ہے جیسے اس بت سے تو برسوں کی شناسائی ...

    مزید پڑھیے