Sarmad Sahbai

سرمد صہبائی

ممتاز جدید پاکستانی شاعر اور ڈرامہ نگار

A leading modern Urdu poet and playwright from Pakistan.

سرمد صہبائی کی نظم

    ایک ڈبہ شاعر کے لئے نظم

    چھوڑ دے یار اب کھیل تماشے دیکھ سوانگ رچاتے اپنا اصلی چہرہ کھو بیٹھے گا اپنے آپ سے جو اک رسمی سا رشتہ ہے ہاتھ اس سے بھی دھو بیٹھے گا چھوڑ دے جھوٹی شہوت کے مصنوعی دعوے عشق و محبت کے یہ جعلی نعرے لذت بھرے تلازموں کے بازاری نطفہ جناتی تشبیہوں میں ان چھوٹی چھوٹی کمینگیوں کے گراتے ...

    مزید پڑھیے

    استعارے ڈھونڈتا رہتا ہوں

    استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں دھوپ میں اڑتی سنہری دھول کے بھید ست رنگی طلسمی پھول کے جانے کس کے پاؤں کی مدھم دھمک دھیان کی دہلیز پر سنتا ہوں میں استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں جانے کس رنگت کو چھو کر شہر میں آتی ہے شام بھول جاتا ہوں گھروں کے راستے لوگوں کے نام ایک ان دیکھے نگر کا ...

    مزید پڑھیے

    ڈھول کا پول

    میں ہی میں ہوں اور میری اس میں میں کی ممیاہٹ میں اپنے نہ ہونے کے خوف کی جھنجھلاہٹ ہے سمجھ گئے نا آپس ہی کی بات ورنہ ''الف'' سے ''ی'' تک میں میں کی گردان ہی میری ٹیس ہے یہ کیا آپ بھی بھولے باچھا ہیں میں نے کہا نا مجھے نہ ڈھونڈیں ایسی فضول تلاش کا مقصد میرے اندر تو مت جھانکیں ہاں باہر سے ...

    مزید پڑھیے

    گوتم کے لئے نظم

    رشی منی و گیانی گیان سرت کی گیدڑ سنگھی مل جائے تو مجھے بتانا اسے بتانا اسے بتانا سب کو بتانا میری آنکھیں تو تیری دہلیز کے باہر جانے کب سے لٹک رہی ہیں لوٹ کے آنا رشی منی و گیانی سارے درختوں پر چیلوں کی کالی دہشت منڈلاتی ہے اور جڑوں میں سانپ اگے ہیں ہاں بودھی کا پیڑ کہیں مل جائے تو ...

    مزید پڑھیے

    محبوبہ کے لئے آخری نظم

    پہلے جتنی باتیں تھیں وہ تم سے تھیں تیرے ہی نام کی ایک ردیف سے سارے قافیے بنتے اور بگڑتے تھے میں اپنے اندھے ہاتھوں سے تیرے جسم کے پراسرار زمانوں کی تحریریں پڑھ لیتا تھا اور پھر اچھی اچھی نظمیں گھڑ لیتا تھا تو بھی تو کاغذ کے پھولوں کی مانند ہر موسم میں کھل جاتی تھی اور میں ہجر و ...

    مزید پڑھیے

    تیرے جوبن کے موسم میں

    او مٹیالی! تیرے جسم کی سوندھی خوشبو روئیں روئیں میں سانولی رت بیدار کرے دل کی اور سے گہری گھور گھٹائیں امڈیں اور میرے یہ پیاسے ہونٹ تیرے سینے کے پیالوں میں تیرتے انگوروں کے رس کے لمس میں بھیگیں تیری ہری بھری سانسوں کی مشک نچوڑیں او مٹیالی تیرے جوبن کے موسم میں دل کے اندر غیبی ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے لیے صبح کے ہونٹ پر بد دعا ہے

    بد دعا ہے ہمارے لیے صبح کے ہونٹ پر بد دعا ہے گھروں میں اترتی اذانوں میں حکم سزا ہے سنو بد دعا ہے ہمارے لیے صبح کے ہونٹ پر بد دعا ہے سنو ہم نے شب بھر اسے یاد رکھا اندھیرے کی دیوار کے سرد سینے سے لگ کر اسے اپنے دل کے افق سے صدا دی کبھی اپنی سانسوں کے دکھ میں پکارا دلاسوں کی دہلیز ...

    مزید پڑھیے

    سرخ اناروں کے موسم میں

    سرخ اناروں کے موسم میں ریشم کے ملبوس سے پھوٹا عریانی کی دھوپ کا جھرنا آئینے میں گردن کے گلدان سے نکلا پھول سا چہرہ آہستہ سے گندھے ہوے بالوں کی ڈالی گر کے گھاٹ پہ جھک جاتی ہے اک لمحے کو ہر شے جیسے رک جاتی ہے پلک جھپکتے آئینے میں اک خونی ڈائن کا عکس ابھر آتا ہے چھت پر اک فانوس کی ...

    مزید پڑھیے

    وہ مر چکا ہے

    وہ جس کے رستے پہ بال کھولے نگر کی سب لڑکیاں کھڑی ہیں وہ مر چکا ہے وہ مر چکا ہے کہ جس کی خاطر نگر کی نو عمر لڑکیوں نے بدن کی خوش رنگ زینتوں کو چھپا کے رکھا جنہوں نے بیتاب حدتوں کو بدن کی پھٹ پڑتی شدتوں کو سنبھالے رکھا جنہوں نے آنکھوں کے نم کو شرم و حیا کے آنچل کی اوٹ ڈھانپا وہ مر چکا ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    تم کس خواہش کی مستی میں میرے دکھوں کو اپنے دلاسوں کی جھولی میں ڈال سکو گے جھوٹے دلاسوں کی یہ جھولی میرے تند دکھوں سے چھلنی ہو جائے گی اور تیرے یہ لوے لوے ہاتھوں کی ڈھارس نفرت سے کمھلا جائے گی کیسے کھلے گا تیری بانہوں کے کندن میں میرا یہ سیال دکھ اور میرے صدمے تیرے بدن کے ان جیتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2