سرفراز زاہد کی غزل

    دو آنکھوں سے کم سے کم اک منظر میں

    دو آنکھوں سے کم سے کم اک منظر میں دیکھوں رنگ و نور بہم اک منظر میں اپنی کھوج میں سرگرداں بے سمت ہجوم تنہائی دیتی ہے جنم اک منظر میں تتلی کو رخسار پہ بیٹھا چھوڑ آئے حیرت کو درکار تھے ہم اک منظر میں لمحہ لمحہ بھرتے جائیں خوف کا رنگ گہری شام اور تیز قدم اک منظر میں گھات میں بیٹھا ...

    مزید پڑھیے

    جہاں چوکھٹ ہے واں زینہ تھا پہلے

    جہاں چوکھٹ ہے واں زینہ تھا پہلے مرا مہمان نا بینا تھا پہلے محبت کی مروج داستاں میں کہیں مرنا کہیں جینا تھا پہلے میں دیواروں سے بھی سچ بولتا تھا مرے کمرے میں آئینہ تھا پہلے کسی رخسار کا تل بن چکا ہے ہمارے دل میں جو کینہ تھا پہلے جسے اب تحفتاً لوٹا رہے ہو مرے اجداد سے چھینا تھا ...

    مزید پڑھیے

    مکین کو مکان سے نکالئے

    مکین کو مکان سے نکالئے یہ نقطہ آسمان سے نکالئے ہمارے ساتھ کیجئے مکالمہ تو خود کو درمیان سے نکالئے خزانہ رہنے دیجئے زمین میں ہوس کو داستان سے نکالئے نمی جگہ بنا رہی ہے آنکھ میں یہ تیر اب کمان سے نکالئے ہماری چپ کو سنتے جائیں غور سے ہماری بات کان سے نکالئے فضاؤں میں پنپ رہی ...

    مزید پڑھیے

    بھنور میں مشورے پانی سے لیتا ہوں

    بھنور میں مشورے پانی سے لیتا ہوں میں ہر مشکل کو آسانی سے لیتا ہوں جہاں دانائی دیتی ہے کوئی موقع وہاں میں کام نادانی سے لیتا ہوں وہ منصوبے ہیں کچھ آباد ہونے کے میں جن پر رائے ویرانی سے لیتا ہوں اب اپنے آبلوں کی گھاٹیوں سے بھی سمندر دیکھ آسانی سے لیتا ہوں نہیں لیتا مگر لینے پہ ...

    مزید پڑھیے

    غفلتوں کا ثمر اٹھاتا ہوں

    غفلتوں کا ثمر اٹھاتا ہوں روز تازہ خبر اٹھاتا ہوں بات بڑھتی ہے طول دینے سے سو اسے مختصر اٹھاتا ہوں ہو کے باشندہ اک ستارے کا انگلیاں چاند پر اٹھاتا ہوں چومتے ہیں جسے اٹھا کر لوگ میں اسے چوم کر اٹھاتا ہوں اب کہاں آسمان چھونے کو زحمت بال و پر اٹھاتا ہوں سوئے منزل میں ہر قدم ...

    مزید پڑھیے

    نظر آتے تھے ہم اک دوسرے کو (ردیف .. ے)

    نظر آتے تھے ہم اک دوسرے کو زمانے کو نظر آنے سے پہلے تعجب ہے کہ اس دھرتی پہ کچھ لوگ جیا کرتے تھے مر جانے سے پہلے مزین تھی کسی کے خال و خد سے ہماری شام پیمانے سے پہلے گریباں کے بٹن پہ اونگھتا تھا ستارہ آنکھ کھل جانے سے پہلے رہا کرتا تھا اپنے زعم میں وہ ہمارے دھیان میں آنے سے ...

    مزید پڑھیے

    خواب زادوں کا دکھ زمینی ہے

    خواب زادوں کا دکھ زمینی ہے یہ حقیقت بڑی کمینی ہے اے خدائے گماں کوئی تجویز معرکہ اب کوئی یقینی ہے پتھروں کے مزاج میں شامل آبگینوں پہ نکتہ چینی ہے وہ مرے سامنے سے اٹھ جائے جس کا مقصد تماش بینی ہے گھر کی تزئین میں سر فہرست ایک عورت کی نکتہ چینی ہے ایک پل کے جمال میں یکجا کئی ...

    مزید پڑھیے

    خود سے اپنا آپ ملایا جا سکتا ہے

    خود سے اپنا آپ ملایا جا سکتا ہے تنہائی کا ہاتھ بٹایا جا سکتا ہے خاموشی جب حملہ آور ہونا چاہے چوراہے پر شور مچایا جا سکتا ہے حیرانی کا قرض چکانا پڑ جائے تو آنکھوں کا احسان اٹھایا جا سکتا ہے دھرتی پر کچھ سبز رتوں کا بھیس بدل کر چرواہے کا خواب چرایا جا سکتا ہے ان کی تیرہ زلفوں سے ...

    مزید پڑھیے

    نظر کی دھوپ میں آنے سے پہلے

    نظر کی دھوپ میں آنے سے پہلے گلابی تھا وہ سنولانے سے پہلے سنا ہے کوئی دیوانہ یہاں پر رہا کرتا تھا ویرانے سے پہلے کھلا کرتے تھے خوابوں میں کسی کے ترے تکیے پہ مرجھانے سے پہلے محبت عام سا اک واقعہ تھا ہمارے ساتھ پیش آنے سے پہلے نظر آتے تھے ہم اک دوسرے کو زمانے کو نظر آنے سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2