سرفراز زاہد کی غزل

    ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم

    ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم دان یہ فقر کی دولت نہیں کر سکتے ہم اک عداوت سے فراغت نہیں ملتی ورنہ کون کہتا ہے محبت نہیں کر سکتے ہم کسی تعبیر کی صورت میں نکل آتے ہیں اپنے خوابوں میں سکونت نہیں کر سکتے ہم شاخ سے توڑ لیا کرتے ہیں آگے بڑھ کر جن کی خوشبو پہ قناعت نہیں کر سکتے ...

    مزید پڑھیے

    ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم

    ایسی ویسی پہ قناعت نہیں کر سکتے ہم دان یہ فقر کی دولت نہیں کر سکتے ہم اک عداوت سے فراغت نہیں ملتی ورنہ کون کہتا ہے محبت نہیں کر سکتے ہم کسی تعبیر کی صورت میں نکل آتے ہیں اپنے خوابوں میں سکونت نہیں کر سکتے ہم استعاروں کے تکلف میں پڑے ہیں جب سے اپنے ہونے کی وضاحت نہیں کر سکتے ...

    مزید پڑھیے

    نظر کی دھوپ میں آنے سے پہلے

    نظر کی دھوپ میں آنے سے پہلے گلابی تھا وہ سنولانے سے پہلے سنا ہے کوئی دیوانہ یہاں پر رہا کرتا تھا ویرانے سے پہلے محبت عام سا اک واقعہ تھا ہمارے ساتھ پیش آنے سے پہلے کھلا کرتے تھے خوابوں میں کسی کے ترے تکیے پہ مرجھانے سے پہلے

    مزید پڑھیے

    جب تعارف سے بے نیاز تھا میں

    جب تعارف سے بے نیاز تھا میں کوئی زاہد نہ سرفرازؔ تھا میں جب ہوا آشکار تب جانا اپنے بارے میں کوئی راز تھا میں اب تو سانسوں میں بھی نہیں ترتیب پہلے وقتوں میں نے نواز تھا میں اے مری انتہائے بربادی کس قدر مبتلائے ناز تھا میں سب کو قدرت تھی خوش کلامی پر خامشی میں زباں دراز تھا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی ہونٹوں پہ ایسا لمس اپنی آنکھ کھولے

    کبھی ہونٹوں پہ ایسا لمس اپنی آنکھ کھولے کہ بوسا خودکشی کرنے سے پہلے مسکرا دے کوئی آنسو چمکنے میں ہمارا ساتھ دیتا تو زہرہ اور عطارد اپنے گھر کی راہ لیتے لجا کر رات نے کچھ اور بھی گھونگھٹ نکالا طلب نے جسم پہنا شوق نے گہنے اتارے تصور میں ٹہلتے خال و خد کیا چاہتے ہیں اداسی سے کہو ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو تالاب ہے دریا تھا کبھی

    یہ جو تالاب ہے دریا تھا کبھی میں یہاں بیٹھ کے روتا تھا کبھی تیرگی نے وہاں دیکھا ہے مجھے روشنی نے جہاں سوچا تھا کبھی اپنی تفہیم کا زندانی لفظ شاخ معنی پہ چہکتا تھا کبھی اب چراگاہ ہے تعبیروں کی میرے خوابوں کا جزیرہ تھا کبھی یاد پڑتا ہے تری فرصت میں میں کسی کام سے آیا تھا ...

    مزید پڑھیے

    مل جل کر ایمان خدا پر لا سکتے ہیں

    مل جل کر ایمان خدا پر لا سکتے ہیں اک جنت میں بھوک اور پیاس سما سکتے ہیں آپ اگر سمجھا دیں خال و خد منظر کے ہم اپنی حیرت کا نام بتا سکتے ہیں میرے کھلیانوں سے اٹھتے آگ کے شعلے جھونکے تیرے باغوں تک پھیلا سکتے ہیں کمرے کے دم گھٹ جانے کا خوف نہ ہو تو ہم اپنی تنہائی کو دہرا سکتے ...

    مزید پڑھیے

    پھر ایسا موڑ اس قصے میں آیا

    پھر ایسا موڑ اس قصے میں آیا میں صدیاں گھوم کر لمحے میں آیا مرا رستہ کسی جنگل سے گزرا کہ خود جنگل مرے رستے میں آیا کسی کے عرش پر ہونے کا دعویٰ سمجھ اک شب مجھے نشے میں آیا میں اپنے گھر بڑی مدت سے کے بعد آج کسی مہمان کے دھوکے میں آیا ترا کردار چلتے پھرتے اک دن مری روداد کے کوچے میں ...

    مزید پڑھیے

    خواب میں منظر رہ جاتا ہے

    خواب میں منظر رہ جاتا ہے تکیے پر سر رہ جاتا ہے آ پڑتی ہے جھیل آنکھوں میں ہاتھ میں پتھر رہ جاتا ہے روز کسی حیرت کا دھبہ آئینے پر رہ جاتا ہے دل میں بسنے والا اک دن جیب کے اندر رہ جاتا ہے ندیا پر ملنے کا وعدہ میز کے اوپر رہ جاتا ہے سال گزر جاتا ہے سارا اور کلینڈر رہ جاتا ہے آنگن ...

    مزید پڑھیے

    ہوا چلتی ہے دم ٹھہرا ہوا ہے

    ہوا چلتی ہے دم ٹھہرا ہوا ہے فضا میں کس کا غم ٹھہرا ہوا ہے تصور میں ابھرتے خال و خد پر مصور کا قلم ٹھہرا ہوا ہے اسی کو اپنی منزل کہہ رہا ہے جہاں جس کا قدم ٹھہرا ہوا ہے سماعت کے جزیروں میں کہیں پر ترے لہجے کا رم ٹھہرا ہوا ہے ذرا ٹھہرو کہ چلتی ہے ابھی سانس چلے آؤ کہ دم ٹھہرا ہوا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2