Sarfraz Khalid

سرفراز خالد

سرفراز خالد کی غزل

    ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے

    ہر لمحے میں صدیوں کا افسانہ ہوتا ہے گردش میں جب سانسوں کا پیمانہ ہوتا ہے ہم کو تو بس آتا ہے سانسوں کا کاروبار کیا کھونا ہوتا ہے اور کیا پانا ہوتا ہے دل کی ضد پر اس سے ملنا پڑتا ہے ہر روز اور پھر ساری دنیا کو سمجھانا پڑتا ہے آنکھیں بھر آتی ہیں میری ہنس لینے کے بعد شہر سے آگے اکثر ...

    مزید پڑھیے

    اپنی صورت کو بدلنا ہی نہیں چاہتا میں

    اپنی صورت کو بدلنا ہی نہیں چاہتا میں اب کسی سانچے میں ڈھلنا ہی نہیں چاہتا میں تم اگر مجھ سے محبت نہیں کرتے نہ سہی ایسی باتوں سے بہلنا ہی نہیں چاہتا میں یا مرے پاؤں میں قوت ہی نہیں ہے اتنی یا تری راہ پہ چلنا ہی نہیں چاہتا میں سنتا رہتا ہوں صدائیں تری دستک کی مگر اپنے کمرے سے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ ہی آنکھ تھی منظر بھی نہیں تھا کوئی

    آنکھ ہی آنکھ تھی منظر بھی نہیں تھا کوئی تو نہیں تیرے برابر بھی نہیں تھا کوئی میرے باہر تو کسی موت کا سناٹا تھا ایسی تنہائی کہ اندر بھی نہیں تھا کوئی کیا تماشا ہے کہ پھر جسم مرا بھیگ گیا راستے میں تو سمندر بھی نہیں تھا کوئی

    مزید پڑھیے

    تابش گیسوئے خم دار لئے پھرتا ہے

    تابش گیسوئے خم دار لئے پھرتا ہے کوئی اس شہر میں تلوار لئے پھرتا ہے بات تو یہ ہے کہ وہ گھر سے نکلتا بھی نہیں اور مجھ کو سر بازار لئے پھرتا ہے جسم کے ساتھ تو رہتا ہوں میں اس پار مگر روح کے ساتھ وہ اس پار لئے پھرتا ہے

    مزید پڑھیے

    تیرے ہونے سے بھی اب کچھ نہیں ہونے والا

    تیرے ہونے سے بھی اب کچھ نہیں ہونے والا مجھ میں باقی ہی نہیں ہے کوئی رونے والا اس سے ملتا ہوں تو لگتا ہے کہ میرے اندر نیند سے جاگ گیا ہے کوئی سونے والا مجھ کو اس کھیل کے آداب سبھی ہیں معلوم میں تو اس کھیل میں شامل نہیں ہونے والا

    مزید پڑھیے

    صحرا کوئی بستی کوئی دریا ہے کہ تم ہو

    صحرا کوئی بستی کوئی دریا ہے کہ تم ہو سب کچھ مری نظروں کا تماشا ہے کہ تم ہو لوٹ آئے ہیں صحرا سے سبھی لوٹنے والے اس بار مرے شہر میں اچھا ہے کہ تم ہو تم ہو کہ مرے لب پہ دعا رہتی ہے کوئی آنکھوں نے کوئی خواب سا دیکھا ہے کہ تم ہو جب بھی کوئی دیتا ہے در خواب پہ دستک میں سوچنے لگتا ہوں کہ ...

    مزید پڑھیے