سرفراز آرش کی غزل

    اس انکسار کا ادراک تجھ کو کم ہوگا

    اس انکسار کا ادراک تجھ کو کم ہوگا مرے چراغ کی لو میں بھی تھوڑا نم ہوگا لپک پڑوں گا میں تصویر سے تری جانب یہ تیری سمت مرا آخری قدم ہوگا گزشتہ رات مجھے سیڑھیوں میں یاد آیا تری تھکن کا سبب بھی کسی کا غم ہوگا میں جانتا تھا مجھے روشنی ودیعت ہے میں جانتا تھا مرے ہاتھ میں قلم ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے بیزار گرنے والی تھی

    مجھ سے بیزار گرنے والی تھی سر سے دستار گرنے والی تھی اس نے تصویر ٹانک دی اپنی ورنہ دیوار گرنے والی تھی میری بیساکھیوں نے آہ بھری جب وہ ناچار گرنے والی تھی کتنی خوش تھی وہ جست بھرتی ہوئی جیسے اس پار گرنے والی تھی کھائی تھی کوئی خواب تھوڑی تھا آنکھ بیکار گرنے والی تھی خون ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی ممنوعہ دانہ کھانا نہ خوف دل میں اتارنا تھا

    نہ کوئی ممنوعہ دانہ کھانا نہ خوف دل میں اتارنا تھا جو ہم نے پہلا گنہ کیا تھا کسی کی نقلیں اتارنا تھا جدید دنیا میں آنے والوں کی پہلی مڈبھیڑ ہم سے ہوتی ہمارے یونٹ کا کام ان کے بدن سے مہریں اتارنا تھا خدا نہ ہوتا تو کاروان جہاں میں اپنی جگہ نہ بنتی کہ ان دنوں میں ہمارا پیشہ سفر ...

    مزید پڑھیے

    ہر شخص بد حواس خبر کے سبب سے تھا

    ہر شخص بد حواس خبر کے سبب سے تھا کشتی میں انتشار بھنور کے سبب سے تھا آنکھیں بدن بغیر اور آنکھوں میں ایک خواب محرومی‌ٔ مآل سفر کے سبب سے تھا بینائی کے غبار سے منظر میں دھول تھی وہ آئنہ سراب نظر کے سبب سے تھا اتنا قلیل بوسہ کہ احساس لمس بھی خود ساختہ نشے کے اثر کے سبب سے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی وحشت پہ رو رہا ہوں میں

    اپنی وحشت پہ رو رہا ہوں میں کس پرندے کا گھونسلہ ہوں میں تیری بینائی ڈھونڈھتی ہے مجھے تیری آنکھوں کا مسئلہ ہوں میں مختلف گیت مجھ سے مروی ہیں مختلف خواب دیکھتا ہوں میں تیرے لفظوں میں نور بھرتا ہوں تیری آواز کا دیا ہوں میں کل میں بیدار خواب گاہ میں تھا آج چوکھٹ پہ جاگتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    پانی میں اگر عکس کی حالت میں بہوں میں

    پانی میں اگر عکس کی حالت میں بہوں میں ممکن ہے کنارے کا کنارہ ہی رہوں میں اے خامہ‌ گر وقت مجھے اذن سخن دے تجھ سے تری رفعت کے توسل سے ملوں میں چلتی ہوئی باتوں میں اسے کام پڑے یاد ٹھہرے ہوئے لفظوں میں اجازت کا کہوں میں بینائی کو ترسی ہوئی بے رنگی کے در پر آنکھوں کی اسیری میں لکھی ...

    مزید پڑھیے

    پیکر سے حسن جھانکتے بولا کہ آئیے

    پیکر سے حسن جھانکتے بولا کہ آئیے دریا کے ساتھ آپ بھی صحرا بنائیے پھر یوں ہوا ہم اس میں کہیں محو ہو گئے اس نے کہا تھا وقت کو سکتے میں لائیے اے ساکنان چشم چلیں صلح کیجیے اٹھیے ہمارے خواب کو سینے لگائیے اس کاسۂ حروف کی سنتا نہیں کوئی دست دعا سمیٹیے اور لوٹ جائیے وقت سفر خموش ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اشک ان سیپیوں میں بھر جائیں

    اشک ان سیپیوں میں بھر جائیں تو وہاں ڈوبنے گہر جائیں خامشی اب تری وضاحت کو تیرے منبر سے ہم اتر جائیں دشت سب کے لیے نہیں وحشت کچھ طلب گار اپنے گھر جائیں راستے میرے پاس بیٹھ رہیں فاصلے دور سے گزر جائیں تتلیاں رنگ جھاڑ لیں اپنے پھر ترے ہونٹ پر اتر جائیں ہم بھی دریا کے نا دہندہ ...

    مزید پڑھیے

    اب تک جو جی چکا ہوں جنم گن رہا ہوں میں

    اب تک جو جی چکا ہوں جنم گن رہا ہوں میں دنیا سمجھ رہی ہے کہ غم گن رہا ہوں میں متروک راستے میں لگا سنگ میل ہوں بھٹکے ہوئے کے سیدھے قدم گن رہا ہوں میں ٹیبل سے گر کے رات کو ٹوٹا ہے اک گلاس بتی جلا کے اپنی رقم گن رہا ہوں میں تعداد جاننا ہے کہ کتنے مرے ہیں آج جو چل نہیں سکے ہیں وہ بم گن ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں زمین اور فلک دست کار ہیں

    آنکھیں زمین اور فلک دست کار ہیں پانی کے جتنے روپ ہیں سب مستعار ہیں خود کو اکیلا جان کے تنہا نہ جاننا یہ آئنہ نہیں ہیں ترے پہرے دار ہیں مشکل کی اس گھڑی میں کروں کس سے مشورہ کچھ دوست ہیں تو وہ بھی فسانہ نگار ہیں یہ چھاؤں جیسی دھوپ ہمارا مزاج ہے ہم لوگ آفتاب ہیں اور سایہ دار ...

    مزید پڑھیے