پیکر سے حسن جھانکتے بولا کہ آئیے
پیکر سے حسن جھانکتے بولا کہ آئیے
دریا کے ساتھ آپ بھی صحرا بنائیے
پھر یوں ہوا ہم اس میں کہیں محو ہو گئے
اس نے کہا تھا وقت کو سکتے میں لائیے
اے ساکنان چشم چلیں صلح کیجیے
اٹھیے ہمارے خواب کو سینے لگائیے
اس کاسۂ حروف کی سنتا نہیں کوئی
دست دعا سمیٹیے اور لوٹ جائیے
وقت سفر خموش ہیں بوسہ کنان لب
ان سے کلام کیجیے ان کو رلائیے
آرشؔ کسی نے چاند بنانا ہے چاک پر
اپنے بدن کی مٹی ذرا گوندھ لائیے