Sardar Asif

سردار آصف

سردار آصف کی غزل

    لفظوں کا یہ خزانہ ترے نام کب ہوا

    لفظوں کا یہ خزانہ ترے نام کب ہوا یہ شعر کب کہے تجھے الہام کب ہوا یہ بات ٹھیک ہے کہ مجھے دام کم ملے چپکے سے بک گیا ہوں میں نیلام کب ہوا کیسی شراب ہوں کہ ہے تشنہ مرے ہی لب اپنے لئے میں درد تہ جام کب ہوا یہ ہے مرا نصیب کہ شہرت نہیں ملی لیکن کوئی بتائے کہ بد نام کب ہوا آتا رہا ہوں یاد ...

    مزید پڑھیے

    ہماری کاوش شعر و سخن بیکار جاتی ہے

    ہماری کاوش شعر و سخن بیکار جاتی ہے غزل کیسی بھی ہو اس کے بدن سے ہار جاتی ہے یہ کیسے مرحلے میں پھنس گیا ہے میرا گھر مالک اگر چھت کو بچا بھی لوں تو پھر دیوار جاتی ہے مرے خوابوں کا اس کی آنکھ سے رشتہ نہیں ٹوٹا مری پرچھائیں اکثر جھیل کے اس پار جاتی ہے چلو آزاد ہو کر کم سے کم اتنا تو ...

    مزید پڑھیے

    نکل کے ذہن سے میرے زباں پہ آیا کب

    نکل کے ذہن سے میرے زباں پہ آیا کب وہ دل کا نغمہ سہی میں نے گنگنایا کب گئی جو دھوپ تو اب چاندنی کی باری ہے کہ ساتھ چھوڑے گا میرا یہ کالا سایہ کب نہ جانے ہو گیا دنیا میں تیرے جیسا کیوں سبق حیات کا تو نے مجھے پڑھایا کب تمام شہر تو خوشبو سے اس کی واقف ہے کوئی تو مجھ کو بتاتا یہاں وہ ...

    مزید پڑھیے

    ہو لینے دو بارش ہم بھی رو لیں گے

    ہو لینے دو بارش ہم بھی رو لیں گے دل میں ہیں کچھ زخم پرانے دھو لیں گے میرا اس بازار میں جانا ہے بے سود میری انا کو وہ سکوں سے تولیں گے جاتے ہیں سب اپنی اپنی ٹولی میں اپنا کون ہے ساتھ کسی کے ہو لیں گے اس کو شاید یاد ہماری آئے گی ہوا چلے گی اور پرندے ڈولیں گے سب چیخے چلائے کیا پڑتا ...

    مزید پڑھیے

    یہ خلق ساری ہوا میرے نام کر دے گی

    یہ خلق ساری ہوا میرے نام کر دے گی مرے چراغوں کا جینا حرام کر دے گی سنا ہے دھوپ کو گھر لوٹنے کی جلدی ہے وہ آج وقت سے پہلے ہی شام کر دے گی کچھ اور دیر جو ٹھہرا میں اس کی آنکھوں میں تو چاند تاروں کو میرا غلام کر دے گی میں اپنے دور سے بد ظن ہوں ابتدا تو کروں کہ اگلی نسل مرا باقی کام کر ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے کیسی آندھی چل رہی ہے

    نہ جانے کیسی آندھی چل رہی ہے ہے جنگل خوش کہ بستی جل رہی ہے کہیں پانی سے دھوکا کھا نہ جانا یہ ندی مدتوں دلدل رہی ہے ترا سورج بھی ٹھنڈا ہو رہا ہے ہماری عمر بھی اب ڈھل رہی ہے کوئی شکوہ نہیں ہم کو کسی سے خود اپنی ذات ہم کو چھل رہی ہے ہمیں برباد کر کے خوش بہت تھی مگر اب ہاتھ دنیا مل ...

    مزید پڑھیے

    غزل کہنے میں یوں تو کوئی دشواری نہیں ہوتی

    غزل کہنے میں یوں تو کوئی دشواری نہیں ہوتی مگر اک مسئلہ یہ ہے کہ معیاری نہیں ہوتی اگر چہرہ بدلنے کا ہنر تم کو نہیں آتا تو پھر پہچان کی پرچی یہاں جاری نہیں ہوتی سمندر سے تو مجبوری ہے اس کی روز ملنا ہے بہت چالاک ہے لیکن ندی کھاری نہیں ہوتی بتاؤں کیا مجھے محتاط رہنا آ گیا کیسے نہ ...

    مزید پڑھیے

    لاکھ سمجھایا مگر ضد پہ اڑی ہے اب بھی

    لاکھ سمجھایا مگر ضد پہ اڑی ہے اب بھی کوئی امید میرے پیچھے پڑی ہے اب بھی شہر تنہائی میں موسم نہیں بدلا کرتے دن بہت چھوٹا یہاں رات بڑی ہے اب بھی مان لوں کیسے یہاں دریا نہیں تھا لوگو دیکھ لو ریت پہ اک کشتی پڑی ہے اب بھی چھت میں کچھ چھید ہیں یہ راز بتانے کے لئے دھوپ خاموشی سے کمرے ...

    مزید پڑھیے

    یہ جھوٹ ہے کہ بچھڑنے کا اس کو غم بھی نہیں

    یہ جھوٹ ہے کہ بچھڑنے کا اس کو غم بھی نہیں وہ رو رہا ہے مگر اس کی آنکھ نم بھی نہیں یہ بات سچ ہے کہ وہ زندگی نہیں میری مگر وہ میرے لئے زندگی سے کم بھی نہیں تجھے پتہ ہی نہیں میری راہ کیسی ہے تو چل سکے گا مرے ساتھ دو قدم بھی نہیں یہ کیا کہ لگتا ہے اب سب کو خالی خالی سا مرے علاوہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    میں جن کو ڈھونڈنے نکلا تھا گہرے غاروں میں

    میں جن کو ڈھونڈنے نکلا تھا گہرے غاروں میں پتہ چلا کہ وہ رہتے ہیں اب ستاروں میں پرکھ رہا ہے مجھے جو وہ اس خیال کا ہے ہمیشہ جھوٹ نہیں ہوتا اشتہاروں میں انہیں یقین تھا دنیا کی عمر لمبی ہے جو لوگ پیڑ لگاتے تھے رہ گزاروں میں میں خود کو دیکھوں اگر دوسرے کی آنکھوں سے ملیں گی خامیاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2