نکل کے ذہن سے میرے زباں پہ آیا کب

نکل کے ذہن سے میرے زباں پہ آیا کب
وہ دل کا نغمہ سہی میں نے گنگنایا کب


گئی جو دھوپ تو اب چاندنی کی باری ہے
کہ ساتھ چھوڑے گا میرا یہ کالا سایہ کب


نہ جانے ہو گیا دنیا میں تیرے جیسا کیوں
سبق حیات کا تو نے مجھے پڑھایا کب


تمام شہر تو خوشبو سے اس کی واقف ہے
کوئی تو مجھ کو بتاتا یہاں وہ آیا کب


میں تم سے پہلے ملا تھا تو اس میں دھڑکن تھی
بتاؤ سینے میں پتھر کا دل لگایا کب


میں اس کے دھیان میں اس درجہ گم ہوا اک دن
پتہ چلا ہی نہیں کب گیا وہ آیا کب


سفر یہ دھوپ کا اب ختم ہونے والا ہے
چلے گا ساتھ مرے کوئی سایہ سایہ کب