Sami Ahmad Samar

سمیع احمد ثمر

  • 2000

سمیع احمد ثمر کی غزل

    جب سے آنکھوں میں کوئی خواب حسیں رکھا ہے

    جب سے آنکھوں میں کوئی خواب حسیں رکھا ہے اس کی تعبیر کا تحفہ بھی کہیں رکھا ہے جس کی فطرت ہے سدا لوگوں کو دھوکا دینا کیوں اسے آپ نے پھر اپنا امیں رکھا ہے سب کو دیتا ہوں محبت کا حسیں گلدستہ جذبہ نفرت کا کبھی دل میں نہیں رکھا ہے گرچہ حیوانیت آنے لگی اس میں پھر سے میں نے انسان کی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ملتی نہیں ہے زندگی کے شہر میں

    زندگی ملتی نہیں ہے زندگی کے شہر میں دکھ ہی دکھ ہیں آج کل اپنی خوشی کے شہر میں مشکلیں تو ہیں بہت دنیا کے میلے میں مگر پاتا ہوں بے حد سکوں میں بندگی کے شہر میں چلتے پھرتے اب غزل کہنے لگا ہوں دوستو آ گیا ہوں جس گھڑی سے شاعری کے شہر میں اس نظارے نے اڑائے ہوش میرے یک بیک اک سے اک ...

    مزید پڑھیے

    دو قدم ساتھ میں چلنے نہیں دیتا کوئی

    دو قدم ساتھ میں چلنے نہیں دیتا کوئی مجھ کو کچھ کام بھی کرنے نہیں دیتا کوئی فون کرتا ہوں تو سنتا نہیں کوئی لیکن ملنا چاہوں بھی تو ملنے نہیں دیتا کوئی پہلے تو ملنے پہ پابندی لگا رکھی ہے بات بھی اس سے تو کرنے نہیں دیتا کوئی غم زدہ رہتا ہوں میں گرچہ بڑی مدت سے اس کا احساس بھی ہونے ...

    مزید پڑھیے

    ذہن میں ناگاہ حیرت آ گئی

    ذہن میں ناگاہ حیرت آ گئی سامنے جب ان کی الفت آ گئی دی سزا منصف نے بھی مظلوم کو جیب میں جب اس کے دولت آ گئی کس کو ہم اچھا کہیں کس کو برا سامنے کھل کر حقیقت آ گئی ہر طرف بے روزگاری دیکھیے لے کے مہنگائی حکومت آ گئی دل میں نفرت ہر نظر میں ہے خلش اب دکھاوے کی محبت آ گئی منتخب جب سے ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کھیل بچوں کا کھیتی کوئی

    نہیں کھیل بچوں کا کھیتی کوئی کسانوں کے اوپر ستم کی گھڑی کسانوں پہ گر ظلم ڈھائے گا تو نہ ظالم رہے گی تری رہبری یہ فرقہ پرستوں کا دیکھو کرم دلوں میں نہ سب کے محبت رہی کہاں آ گئے ہم بتا رہنما دھوئیں میں ہے آٹھوں پہر زندگی خوشی سب کو حاصل ہوئی ہے کہاں یہ مہنگائی اور چھن گئی ...

    مزید پڑھیے