Samad Ansari

صمد انصاری

صمد انصاری کی غزل

    وہ آرزو کہ دلوں کو اداس چھوڑ گئی

    وہ آرزو کہ دلوں کو اداس چھوڑ گئی مری زباں پہ سخن کی مٹھاس چھوڑ گئی لکھی گئی ہے مری صبح کے مقدر میں وہ روشنی جو کرن کا لباس چھوڑ گئی اٹھی تھی موج جو مہتاب کے کنارے سے زمیں کے گرد فلک کی اساس چھوڑ گئی یہ کس مقام تمنا سے بے خودی گزری یہ کس کا نام پس التماس چھوڑ گئی چراغ زیست سے ...

    مزید پڑھیے

    چشم حیراں کو یوں ہی محو نظر چھوڑ گئے

    چشم حیراں کو یوں ہی محو نظر چھوڑ گئے دل میں لہرائے خیالوں میں شرر چھوڑ گئے جن کے سائے میں کبھی بیٹھ کے سستایا تھا وہ گھنے پیڑ مری راہگزر چھوڑ گئے منتظر ان کے لیے ہے کسی گرداب کی آنکھ خود سفینوں کو جو ہنگام خطر چھوڑ گئے قافلے نور کے اترے نہ کسی منزل پر شب کے نم دیدہ کناروں پہ سحر ...

    مزید پڑھیے

    وہ گم ہوئے ہیں مسافر رہ تمنا میں

    وہ گم ہوئے ہیں مسافر رہ تمنا میں کہ گرد بھی نہیں اب آرزو کے صحرا میں ہے کون جلوہ سرا بام آفرینش پر اتر گئے ہیں ستارے سے چشم بینا میں ملی تھی جس کو نمو درد کی صلیبوں سے وہ لمس بھی نہیں باقی مرے مسیحا میں کشید جن سے ہوئی تھی نئے زمانوں کی وہ میکدے بھی ہوئے غرق موج صہبا میں اٹھا ...

    مزید پڑھیے

    اترے طلسم شب کے اجالوں پہ رات بھر

    اترے طلسم شب کے اجالوں پہ رات بھر قرباں ہوئی ہے صبح چراغوں پہ رات بھر ظلمت میں اپنی ڈوب گئیں دن کی بستیاں سورج تمام چمکے ستاروں پہ رات بھر اترے نہیں شبوں میں اڑانوں کے حوصلے بیٹھے رہے پرند بھی شاخوں پہ رات بھر اک لو نہیں نصیب غریبان شہر کو شمعیں جلی ہیں کتنی مزاروں پہ رات ...

    مزید پڑھیے

    روشنی تک روشنی کا راستہ کہہ لیجئے

    روشنی تک روشنی کا راستہ کہہ لیجئے رات کو شام و سحر کا فاصلہ کہہ لیجئے دے گئی کتنی بہاریں ایک فصل آرزو رنگ و بو کو موسموں کا خوں بہا کہہ لیجئے گونجتی ہے عمر ویراں میں تمنا کی تھکن حرف غم کو گنبد جاں کی صدا کہہ لیجئے کند آخر کر گئیں تلوار کو خونریزیاں دوستی کو دشمنی کی انتہا کہہ ...

    مزید پڑھیے

    پتھر کی نیند سوتی ہے بستی جگائیے

    پتھر کی نیند سوتی ہے بستی جگائیے آب حیات سا کوئی اعجاز لائیے جل جائیے مقام پہ اپنے مثال شمع اپنے بدن کی لو سے نہ گھر کو جلائیے اک نہر کاٹیے کبھی سینے سے چاند کے دامان شب میں نور کا دھارا بہائیے آ تو گئے ہیں آپ خریدار کی طرح کچھ تن کو خرچ کیجیئے جاں کو بھنائیے جن کے دھوئیں سے ...

    مزید پڑھیے

    بجھتے سورج کے شرارے نور برسانے لگے

    بجھتے سورج کے شرارے نور برسانے لگے رفتہ رفتہ چاند تاروں میں نظر آنے لگے کر گیا بیدار پتھر کو فن خارا تراش کتنے نادیدہ صنم آنکھوں میں لہرانے لگے موج بوئے گل سے بھڑکی ہیں دبی چنگاریاں پھر ہوا کے سرد جھونکے جسم جھلسانے لگے کٹ کے رہ جائے گی آخر قسمت غم کی لکیر تیرے زندانی اگر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2