Salman Ansari

سلمان انصاری

  • 1957

سلمان انصاری کی نظم

    حصار تیرگی

    خواہشوں کے لمس میں ڈوبی ہوئی دائروں میں گھومتی تنہائیاں احتباس و جبر کی تاریک شب مضطرب رنجور گندم گوں سحر ایسا لگتا ہے اندھیرا کہہ رہا ہو زیر لب اے کبود و کور چشم اے لعین تجھ کو بخشی تھی کرن از راہ دل سوزی مگر تو سمجھتا ہے کہ یہ جود و سخا لطف و عطف تیرا استحقاق ہے اور تو خدائے ...

    مزید پڑھیے

    سیمیا

    تمہاری بابت میں سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے لفظ سارے بدن دریدہ و سر بریدہ بیان و اظہار کے سہارے یہ لفظ سارے میرے تخیل کی بارگاہ سخن میں جیسے قطار اندر قطار محجوب پا پیادہ کھڑے ہوئے ہیں تمہیں جو سوچوں تو لفظ سوچوں جو لفظ سوچوں تو ایسے پیکر کا ترجماں کوئی لفظ سوچوں جو عکس افگن ہو ...

    مزید پڑھیے

    رخش عمر

    بیٹھا تھا ایک روز میں آنگن کی دھوپ میں عالم تمام حلقۂ دام خیال تھا سرگوشیوں میں وقت سناتا تھا بار بار قصے قدیم قیصر و کسریٰ کی شان کے کرتا تھا ورق ورق ہر اک داستان کے میں نے کہا کہ ہمدم و ہمراز و دیدہ ور ما قصۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم کچھ ذکر ہو صبا کا گلوں کا شباب کا ساغر کا ...

    مزید پڑھیے

    وہ پل

    اگر وہ پل مجھے اک بار مل جائے تو میں پوچھوں کہ یہ سودا مرے سر میں سمایا کس لئے تو نے یہ درد لا دوا دل میں جگایا کس لئے تو نے خرد ادراک عقل‌ و فہم سب بیگار ہوں جیسے فراست دور بینی آگہی بے کار ہوں جیسے حوالے استعارے مشورے دشوار ہوں جیسے دلائل فلسفے منطق ذہن پر بار ہوں جیسے بصیرت ...

    مزید پڑھیے

    بغداد

    حسن جس شہر میں تو گیلی مٹی سے کبھی کوزے بناتا تھا تجھے اس شہر میں مٹی نہیں اب سر ملیں گے ہزاروں خستہ تن لاشوں سے رستا خون تیرے شہر کی مٹی کو یوں سیراب کرتا ہے کہ اب جو تو کبھی مٹی سے کھیلے گا تو ہر کوزہ صراحی جام و مینا لہو کے رنگ کے ہوں گے تری نقش و نگاری اور ترے ہاتھوں کی صناعی نہ ...

    مزید پڑھیے

    لب تنور

    میں اکثر رات کی تنہائی سے یہ پوچھتا ہوں کہ میرا آج میرے کل سے کیوں کر مختلف ہے وہی میں ہوں وہی دیوانگی ہے وہی وحشت وہی فکر معیشت یہ بے چینی یہ ویرانی مجھے کیوں کھائے جاتی ہے مگر جذبوں سے عاری درد سے غافل یہ تنہائی سدا خاموش رہتی ہے مجھے لگتا ہے تنہائی فقط بہری نہیں گونگی بھی ہے ...

    مزید پڑھیے

    بھٹکا مسافر

    میں جب چھوٹا تھا اپنی ماں سے اکثر ضد یہ کرتا تھا سناؤ دوپہر میں تم مجھے کوئی کہانی کوئی ایسی کہانی جس میں شہزادی ہو تم جیسی کوئی ایسی کہانی سیمیا گر جس میں شہزادہ ہو مجھ جیسا وہ کہتی بے خبر معلوم بھی ہے سناتا ہے اگر دوپہر میں کوئی کہانی تو بے چارے مسافر گھر کا رستہ بھول جاتے ...

    مزید پڑھیے

    اضطراب

    کتنی ہی سوئی دوپہروں میں کتنی ہی جلتی راتوں میں ہر خواب ادھورا مڑ مڑ کر جانے کیا ڈھونڈا کرتا ہے کچھ بھیگے پل بوجھل قدموں کی چاپ لئے حیران پریشاں پوچھتے ہیں یہ موڑ کہاں تک جاتا ہے کچھ بے ہنگم سی تصویریں دھندلی دھندلی بے ڈول سے کچھ لمبے سائے ویران ہمکتی تنہائی امید کے روشن دانوں ...

    مزید پڑھیے