Salman Ansari

سلمان انصاری

  • 1957

سلمان انصاری کی غزل

    دل کو اجڑے ہوئے بیتے ہیں زمانے کتنے

    دل کو اجڑے ہوئے بیتے ہیں زمانے کتنے کلک تقدیر نے لوٹے ہیں خزانے کتنے بھول جاتا ہوں مگر سچ تو یہی ہے برسوں تم سے وابستہ رہے خواب سہانے کتنے دل دکھاتی ہی رہی گردش ایام مگر ہم بھی مصروف رہے خود بھی نہ جانے کتنے ایک ہم اور یہ دشنام طرازی توبہ اپنے اطراف رہے آئنہ خانے کتنے اک نظر ...

    مزید پڑھیے

    سود و زیاں کے باب میں ہارے گھڑی گھڑی

    سود و زیاں کے باب میں ہارے گھڑی گھڑی سانسوں کے قرض ہم نے اتارے گھڑی گھڑی چلتی رہی ہوائے مخالف تمام رات گرتے رہے فلک سے ستارے گھڑی گھڑی تھمتی ہے روز گردش ساغر مگر خمار چلتا ہے ساتھ ساتھ ہمارے گھڑی گھڑی اب ہجر نہ وصال نہ سودا ترے بغیر دکھتا ہے دل بھی درد کے مارے گھڑی گھڑی اے ...

    مزید پڑھیے

    مے کشی چھوڑ دی توہین ہنر کر آیا

    مے کشی چھوڑ دی توہین ہنر کر آیا جام الٹائے سبو زیر و زبر کر آیا جب وہ دیوار گری تھی تو یہ در کیوں رہتا بس یہی سوچ کے مسمار وہ گھر کر آیا دشت امکان میں تنہا میں کہاں تک جاتا جب گماں بھی نہ رہا ترک سفر کر آیا ایک امید کا عالم ہے کہ تھکتا ہی نہیں بار احسان سے بھی صرف نظر کر آیا راہ ...

    مزید پڑھیے