Salman Ansari

سلمان انصاری

  • 1957

سلمان انصاری کے تمام مواد

3 غزل (Ghazal)

    دل کو اجڑے ہوئے بیتے ہیں زمانے کتنے

    دل کو اجڑے ہوئے بیتے ہیں زمانے کتنے کلک تقدیر نے لوٹے ہیں خزانے کتنے بھول جاتا ہوں مگر سچ تو یہی ہے برسوں تم سے وابستہ رہے خواب سہانے کتنے دل دکھاتی ہی رہی گردش ایام مگر ہم بھی مصروف رہے خود بھی نہ جانے کتنے ایک ہم اور یہ دشنام طرازی توبہ اپنے اطراف رہے آئنہ خانے کتنے اک نظر ...

    مزید پڑھیے

    سود و زیاں کے باب میں ہارے گھڑی گھڑی

    سود و زیاں کے باب میں ہارے گھڑی گھڑی سانسوں کے قرض ہم نے اتارے گھڑی گھڑی چلتی رہی ہوائے مخالف تمام رات گرتے رہے فلک سے ستارے گھڑی گھڑی تھمتی ہے روز گردش ساغر مگر خمار چلتا ہے ساتھ ساتھ ہمارے گھڑی گھڑی اب ہجر نہ وصال نہ سودا ترے بغیر دکھتا ہے دل بھی درد کے مارے گھڑی گھڑی اے ...

    مزید پڑھیے

    مے کشی چھوڑ دی توہین ہنر کر آیا

    مے کشی چھوڑ دی توہین ہنر کر آیا جام الٹائے سبو زیر و زبر کر آیا جب وہ دیوار گری تھی تو یہ در کیوں رہتا بس یہی سوچ کے مسمار وہ گھر کر آیا دشت امکان میں تنہا میں کہاں تک جاتا جب گماں بھی نہ رہا ترک سفر کر آیا ایک امید کا عالم ہے کہ تھکتا ہی نہیں بار احسان سے بھی صرف نظر کر آیا راہ ...

    مزید پڑھیے

8 نظم (Nazm)

    حصار تیرگی

    خواہشوں کے لمس میں ڈوبی ہوئی دائروں میں گھومتی تنہائیاں احتباس و جبر کی تاریک شب مضطرب رنجور گندم گوں سحر ایسا لگتا ہے اندھیرا کہہ رہا ہو زیر لب اے کبود و کور چشم اے لعین تجھ کو بخشی تھی کرن از راہ دل سوزی مگر تو سمجھتا ہے کہ یہ جود و سخا لطف و عطف تیرا استحقاق ہے اور تو خدائے ...

    مزید پڑھیے

    سیمیا

    تمہاری بابت میں سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے لفظ سارے بدن دریدہ و سر بریدہ بیان و اظہار کے سہارے یہ لفظ سارے میرے تخیل کی بارگاہ سخن میں جیسے قطار اندر قطار محجوب پا پیادہ کھڑے ہوئے ہیں تمہیں جو سوچوں تو لفظ سوچوں جو لفظ سوچوں تو ایسے پیکر کا ترجماں کوئی لفظ سوچوں جو عکس افگن ہو ...

    مزید پڑھیے

    رخش عمر

    بیٹھا تھا ایک روز میں آنگن کی دھوپ میں عالم تمام حلقۂ دام خیال تھا سرگوشیوں میں وقت سناتا تھا بار بار قصے قدیم قیصر و کسریٰ کی شان کے کرتا تھا ورق ورق ہر اک داستان کے میں نے کہا کہ ہمدم و ہمراز و دیدہ ور ما قصۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم کچھ ذکر ہو صبا کا گلوں کا شباب کا ساغر کا ...

    مزید پڑھیے

    وہ پل

    اگر وہ پل مجھے اک بار مل جائے تو میں پوچھوں کہ یہ سودا مرے سر میں سمایا کس لئے تو نے یہ درد لا دوا دل میں جگایا کس لئے تو نے خرد ادراک عقل‌ و فہم سب بیگار ہوں جیسے فراست دور بینی آگہی بے کار ہوں جیسے حوالے استعارے مشورے دشوار ہوں جیسے دلائل فلسفے منطق ذہن پر بار ہوں جیسے بصیرت ...

    مزید پڑھیے

    بغداد

    حسن جس شہر میں تو گیلی مٹی سے کبھی کوزے بناتا تھا تجھے اس شہر میں مٹی نہیں اب سر ملیں گے ہزاروں خستہ تن لاشوں سے رستا خون تیرے شہر کی مٹی کو یوں سیراب کرتا ہے کہ اب جو تو کبھی مٹی سے کھیلے گا تو ہر کوزہ صراحی جام و مینا لہو کے رنگ کے ہوں گے تری نقش و نگاری اور ترے ہاتھوں کی صناعی نہ ...

    مزید پڑھیے

تمام